کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 408
چنانچہ مفتی عزیز الرحمن دیوبندی فرماتے ہیں کہ بانجھ جانور کی قربانی درست ہے۔[1] علاوہ ازیں ہمارے نزدیک جس طرح خصی جانور کی قربانی کا گوشت غیر خصی گوشت سے زیادہ لذیذ اور مرغوب ہوتا ہے۔ اسی طرح بانجھ بکری کا گوشت مطفلہ بکری کے گوشت سے بہتر ہوتاہے۔ لہٰذا اس کی قربانی میں شبہ کی ضرورت نہیں۔ (ہٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ) (خصی جانور کی قربانی ) خصی جانور قربانی کرنا جائز ہے سوال۔ خصی بکرا کی قربانی کا کیا حکم ہے کیوں کہ اس میں عیب ہے۔ کیا قربانی میں لگ سکتا ہے؟ (عبید اللہ عفیف۔ کوٹ ادو) (8ستمبر1995ء) جواب۔ جانور کو خصی کرنے کے بارے میں اہل علم کا سخت اختلاف ہے۔ ایک گروہ مطلقاً عدمِ جواز کا قائل ہے۔ جب کہ دوسرا گروہ جواز کا قائل ہے۔ اور کچھ اہل علم کے نزدیک ماکول اللحم(حلال) جانور کو خصی کرنا جائز ہے۔ اور غیر ماکول اللحم کو خصی کرنا ناجائز ہے۔ ترجیح اس بات کو ہے کہ مأکول اللحم جانور کو بوقتِ ضرورت خصی کرنا جائز ہے۔ متعدد روایات سے ثابت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی شدہ نر دنبوں کی قربانی کی ہے۔ ظاہر ہے کہ جانور کو خصی صرف گوشت کو بہتر بنانے کے لیے کیا جاتا ہے۔ا س لیے مباح عمل ہے۔ یہ عیب نہیں ہاں البتہ بلاوجہ خصی کردیا جائے تو واقعی عیب بن جاتا ہے۔ اس مختصر سی بحث سے معلوم ہوا کہ خصی بکرا کی قربانی جائز ہے۔ مسئلہ ہذا پر تفصیلی گفتگو ’’الاعتصام‘‘ میں پہلے شائع ہو چکی ہے۔ کیا خصی جانور کی قربانی جائز ہے؟ سوال۔ ہمارے ہاں ایک مسئلہ پیدا ہوگیا ہے کہ بکرا اگر خصی ہو تو اس میں عیب پیدا ہو جاتا ہے۔ اس لیے قربانی میں شک پیدا ہو گیا ہے۔ آپ براہِ مہربانی اس کی وضاحت تحریر فرمائیں۔ بڑی مہربانی ہوگی۔ (محمد زکریا بھٹی سلانوالی۔ سرگودھا ) (19 اپریل 1995ء) جواب۔ خصی شدہ بکرے کو قربانی کرنا جائز ہے۔ ’’مسند احمد‘‘ اور ’’سنن ابی داؤد‘‘ وغیرہ کی بعض روایات میں موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خصی شدہ نَر دُنبوں کی قربانی کی ہے۔[2] اور حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ ’’فتح الباری‘‘ میں امام قرطبی سے