کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 402
ثانیاً:’’صحیح بخاری‘‘کی مذکورہ تعلیق کے علاوہ بھی وہ حدیث یقیناً صحیح ہے۔ اس حدیث کی صحت کا انحصار صرف اس تعلیق پر ہی نہیں بلکہ صحت کے دیگر مرجحات بھی موجود ہیں جن کی تفصیل مقدمہ فتح الباری و مسند احمد بن حنبل کی تحقیق میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے اور ان مرجحات پر مولانا اثری یقینا مطلع ہیں۔ لہٰذا حضرت کا ’’صحیح بخاری‘‘ کی تعلیقات کو بنیاد بنا کر مسند ابی عوانہ کی تعلیق پر اعتماد کرنا محل نظر ہے۔ فاضل اثری کی دوسری دلیل یہ ہے کہ ’’متقدمین کی وسعت ِ نظری کے پیش نظر بالخصوص شیخین کی تحری و تتبع متاخرین پر مقدم ہے۔‘‘ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ متقدمین رجال و اسانید پر وسیع النظر تھے۔ اور ذخیرۂ حدیث پر کامل ادراک تھا اور متاخرین کی تحقیق چند قلمی اور مطبوعہ کتابوں تک محدود ہے۔ لیکن صرف اس حسن ظن کی بنیاد پر متاخرین کی تحقیق کو قابل اعتنا نہ سمجھنا قرین انصاف نہیں۔ بالعموم متاخرین تو کجا دورِ حاضر کے بعض فضلاء کو مَیں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو رجال و اسانید پر انتہائی بلیغ النظر ہیں، جن میں میرے نزدیک حضرت اثری حفظہ اللہ بھی ہیں۔ کیا متقدمین کے کامل وسیع النظر ہونے کے باوجود متاخرین کے بعض اہم افادات نہیں ہیں؟ علوم کا کوئی بھی طالب علم اس کا انکار نہیں کر سکتا۔ حضرت اثری کا یہ تعاقب ہی اس پر شاہد عدل ہے کہ علامہ ذہبی جیسی عبقری شخصیت نے کامل وسیع النظر ہونے کے باوجود ابوالزبیر کے عنعنہ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے جن تین احادیث کو بطورِ مثال ذکر کیاہے۔ حضرت اثری حفظہ اللہ نے خالص علمی انداز میں تحقیق کرکے ثابت کیا ہے کہ یہ تینوں روایات صحیح ہیں اور ان میں تصریح سماع موجود ہے۔ اس کے باوصف یہ سمجھنا کہ متاخرین کی کوشش صرف چند قلمی و مطبوعہ کتب تک محدود ہے۔ فیاللعجب آخر حسن ظن کی بھی کوئی حدہونی چاہیے۔ دورِ حاضر میں تحقیق و تفتیش کے جو وسائل میسر ہیں متقدمین کے ہاں ان کا تصور بھی نہیں۔ دورِ حاضر کی کوئی تحقیق جو حقائق کی روشنی میں ہو، اگر متقدمین کی تحقیق کے خلاف ہو تو وسعت ِ ظرفی سے اسے قبول کرنا چاہیے نہ کہ محض حسن ظن کی بنیاد پر اسے ناقابل التفات سمجھا جائے۔ (29جون 2001ء) جواب علمی انداز میں ہی دیا جانا چاہیے! (ا ز شیخ الحدیث حافظ ثناء اللہ خان صاحب مدنی) ”الاعتصام‘‘ کے شمارہ نمبر 7،جلد:53 کی اشاعت میں ’’قربانی کے ضروری مسائل‘‘ سے متعلق ایک فتویٰ میں، میں نے عقبہ بن عامر وغیرہ کی روایات کی روشنی میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ کی ’’روایت مسنہ‘‘ جسے امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی ’’صحیح‘‘ میں نقل کیا ہے کو استحباب پر محمول کیا جو کہ جمہور اہل علم کا موقف ہے۔ اسی تناظر میں ضمناً میں نے شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ سے اس کی عدمِ صحت نقل کی۔ میں نے اپنی طرف سے اس پر ضعف کا حکم قطعاً نہیں لگایا۔ ’’الاعتصام‘‘ کے شمارہ جات اس کے شاہد ہیں۔ شیخ البانی رحمۃ اللہ علیہ کی طرف سے تضعیف نقل کرنے سے مقصود صرف یہ تھا کہ مذکورہ علت کے رفع کے لیے اہل علم