کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 400
یہ کہ ان محدثین کرام اور ماہرین نقاد نے ان کو ایسے ہی قبول نہیں کیا، بلکہ وہ ہیں ہی قبول کرنے کے لائق۔ جیسا کہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ( عَرَضْتُ کِتَابِی ھٰذَا عَلٰی اَبِیْ زُرْعَۃَ الرَّازِیِّ فَکُلُّ مَا اَشَارَ اِلَیْہِ اَنَّ لَہٗ عِلَّۃٌ تَرَکْتُہٗ وَ کُلُّ مَا قَالَ: اِنَّہٗ صَحِیْحٌ وَلَیْسَ لَہٗ عِلَّۃٌ خَرَّجْتُہ) [1] (و قال اَیْضًا فِی صَحِیْحِ مُسْلِمٍ بِشَرحِ النَّوَوِیِّ ،ج:4،ص:122 : مَا وَضَعْتُ شَیْئًا فِیْ کِتَابِیْ ھٰذَا الا بِحُجَّۃٍ و مَا اَسْقَطتُّ مِنْہُ شَیْئًا اِلَّا بِحُجَّۃٍ ۔ لَیْسَ کُلُّ شَیْئٍ عِنْدِیْ صَحِیْحٌ وَضَعْتُہٗ اِنَّمَا وَضَعْتُ مَا اَجْمَعُوْا عَلَیْہِ۔ اھ) اور (مَا اَجْمَعُوْا) سے مراد کون ہیں؟ اس کی تصریح شیخ الاسلام سراج الدین البلقینی نے ’’محاسن الاصلاح‘‘،ص:91 پر اس طرح کی ہے: ( اَرَادَ مُسْلِمٌ بِقَوْلِہٖ ’ مَا اَجْمَعُوْا عَلَیْہِ‘ اَرْبَعَۃٌ اَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ ، وَ یَحْیٰی بْنُ مَعِیْنٍ وَ عُثْمَانُ بْنُ اَبِیْ شَیْبَۃَ وَ سَعِیْدُ بْنُ مَنْصُوْرٍ الْخُرَاسَانِیُّ) تو ایسے اماموں کی نظروں سے یہ احادیث بھی گزری ہوں گی جن میں عنعنہ ہے۔ تو ان نقاد ماہرین اماموں کی نظروں سے یہ علّتیں کیسے پوشیدہ رہیں۔ اس کا صاف مطلب یہی ہے کہ انھوں نے ان کو ان علتوں سے پاک سمجھا تب ہی ان کو قبول کیا۔ جب ایسے اماموں نے ان کو قبول کیا ہے تو ہم جیسے ان روایات کو ضعیف کرنے کی جسارت نہیں کر سکتے۔ باقی رہا (لَا تَذْبَحُوْا اِلَّا مُسِنَّۃ…الخ) کی حدیث میں ابوالزبیر کا حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے سماع تو مسند ابی عوانہ(ص:227۔228،ج:5) پر اس کی صراحت موجود ہے۔ ملاحظہ فرمائیں: ( رَوََاہُ مُحَمَّدُ بْنُ بَکْرٍ عَنِ ابْنِ جُرَیْجٍ حَدَّثَنِیْ اَبُو الزَّبَیْرِ اَنَّہُ سَمِعَ جَابِرًا یَقُوْل ، وَذَکَرَ الْحَدِیْث ) تو یہاں ابو الزبیر کے سماع کی تصریح ہوگئی، ان شاء اللہ سبحانہ و تعالیٰ اب کوئی اشکال نہ ہوگا۔ (ابواحسان اللہ محمد قاسم شاہ) (22 جون 2001ء) حدیث مسنہ کے راوی ابوالزبیر(تحقیق کا دوسرا رخ) (از جناب مولانا عبدالرشید راشد) یکم ربیع الاوّل 1422ھ کے ہفت روزہ ’’الاعتصام‘‘ میں’’صحیح مسلم‘‘کی ایک روایت سے متعلق ابوالزبیر مکی کی تدلیس کے حوالے سے میرا ایک مضمون شائع ہوا ، جس کی تفصیل مذکورہ پرچہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔