کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 398
تب ہی تو جمہور علمائے امت کی طرف سے ان کو تلقی بالقبول حاصل ہے ورنہ ان میں ایسے بہت سے رواۃ ہیں جن پر کلام ہوا ہے اور آپ بخوبی یہ علم رکھتے ہیں کہ کتنے ہی ایسے رواۃ ہیں جو دوسری کتب احادیث میں وارد ہوں تو ان کی روایت ضعیف ہوتی ہے، اگر وہ رواۃ ’’صحیحین‘‘ میں وارد ہوں تو ان کی روایات صحیح ہوتی ہیں اور ان کے تذکرے کی میں سمجھتا ہوں کہ ضرورت نہیں۔ اسی طرح ’’صحیحین‘‘ میں کتنے ہی ایسے مدلسین روایت کرتے ہیں جنھوں نے وہاں سماع کی تصریح نہیں کی۔ لیکن اجماع امت نے ان سب کو قبولیت کا درجہ دیا ہے۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ پوری امت ہی غلطی پر ہو اور ان کو جو قبولیت کا درجہ دیا ہے تو وہ بھی سوچ سمجھ کر اور ماہرین نقاد نے پوری طرح پرکھ کر دیا ہے۔ اگر آپ یہ فرمائیں کہ ایسی اکثر روایات کا متصل ہونا دوسرے مقامات پر یا دوسری کتب احادیث میں ثابت ہوچکا ہے تو میں یہ عرض کروں گا کہ صحیحین پر جو مستخرجات لکھے جا چکے ہیں وہ اب تک کتنے منظر عام پر آچکے ہیں؟ ایک دو کے علاوہ باقی سب ہی ابھی تک نظروں سے پوشیدہ ہیں، جب سارے ہی منظر ِ عام پر آجائیں گے پھر ہی کسی حتمی فیصلے کے متعلق سوچا جا سکتا ہے اور موجودہ حالات میں جب کہ ہمارے یہاں وہ پورا مواد ہی موجود نہیں ہم ان پر ضعف کا حکم کس طرح لگا سکتے ہیں؟ حقیقت ان روایات پر ضعف کا حکم لگانا میرے علم کی کمی تو ہو سکتی ہے یعنی اپنی تحقیق کے مطابق جسے میں ضعیف سمجھ رہا ہوں وہ درحقیقت ضعیف نہ ہو۔ بلکہ اس کی وجہ میرے علم کا ناقص ہونا ہو جس کا مجھے ادراک نہیں ہو رہا کیونکہ وہ کتابیں جن میں ان روایات کے متصل ذکر ہونے کا قوی امکان ہے میرے سامنے نہیں۔ اس کے علاوہ اور بھی بہت سی وجوہ ہیں جن کی بناء پر علمائے امت نے ان کو قبول کیا ہے اور ان پر ضعیف کا حکم لگانے سے احتراز کیا ہے۔ جیسا کہ امام ذہبی ’’میزان الاعتدال‘‘ (ج:1،ص: 641) پر خالد بن مخلد القطوانی کے ترجمہ میں ایک حدیث ذکر کرتے ہیں کہ :(مَنْ عَادَی لِیْ وَلِیًّا) یہ حدیث صحیح البخاری میں ہے۔ پھر فرماتے ہیں:(فَھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ جِدًا ، لَوْ لَاھَیْبَۃُ الجَامِعِ الصَّحِیْحِ لَعُدُّوْہُ فِی مُنْکََرَاتِ خَالِدِ بْنِ مَخْلَدٍ) اسی طرح ’’میزان الاعتدال‘‘ (ج:4،ص:39) پر ابو الزبیر المکی کے ترجمہ میں رقمطراز ہیں کہ: (وَ فِیْ صَحِیْحُ مُسْلِمٍ، عِدَّۃُ اَحَادِیْثَ مِما لم یُوْضِحْ فِیْہَا اَبُو الزُّبَیْرِ السَّمَاعَ عَنْ جَابِرٍ وَہِیَ مِنْ غَیْر طَرِیْقِ اللَّیْثِ عَنْہُ فَفِی الْقَلْبِ مِنْہَا شَیْئٌ ۔ مِنْ ذٰلِکَ حَدِیْثٌ لَا یَحِلُّ لِأََحَدٍ حَمْلَ السَّلَاح بِمَکَّۃَ وَ حَدِیْثَ رَأَی عَلَیْہِ الصـلاۃ والسلام اِمْرَأَۃً فَاعَجَبَتْہٗ فَاَتٰی اَھْلَہٗ زَیْنَبَ وَ حَدِیْثُ النَّھْیِ عَنْ تَجْصِیْصِ الْقُبُوْرِ وَغَیرِ ذٰلِکَ ) دیکھئے امام ذہبی رحمۃ اللہ علیہ جیسے نقاد اور ماہر محدث کو بھی ان روایات کو ضعیف کرنے کی جرأت نہ ہوئی۔ اپنے تذبذب کا اظہار تو فرماتے ہیں لیکن ان پر ضعف کا حکم لگانے سے احتراز کرتے ہیں اور آج کوئی ’’صحیحین‘‘ کی کتر بیونت پر لگا ہوا
[1] ۔ سلسلۃ الصحیحۃ ،ج:6،ص:1053، 1054