کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 396
(وَ رَوَاہ محمد بن بکر عن ابن جریج حَدَّثَنِیْ اَبُو الزُّبَیْرِ أَنَّہُ سَمِعَ جَابِرًا یَقُوْلُ، وَ ذَکَرَ الْحَدِیْث)[1] بتلائیے تصریح سماع اور کسے کہتے ہیں؟ مگر یہاں دو اشکال ہیں، جن کا اظہار علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے (الصَّحِیحۃ) [2] کے تحت کیا ہے۔ ایک یہ کہ یہ سند معلق ہے۔ جس سے استدلال صحیح نہیں، دوسرا یہ کہ یہاں غالباً ناقل یا طابع سے سہو ہوا ہے۔ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ نے حدیثِ مسنہ کے بعد ایک دوسری حدیث ’محمد بن بکر عن ابن جریج حَدَّثَنِیْ اَبُو الزُّبَیْرِ اَنَّہُ سَمِعَ جَابِرًا کی سند سے ذکر کی۔ امام ابو عوانہ نے اس کی تخریج کی ہے اور پہلی سند ناقل یا طابع کی غلطی سے ساقط ہو گئی ہے۔ حدیث ِ مسنہ کے ساتھ اس کا تعلق نہیں۔ بلاشبہ دوسری بات میں وزن ہے بشرطیکہ صحیح نسخہ سے اس کی تائید ہو۔ انھوں نے فرمایا ہے کہ ظاہر یہ کے مکتبہ میں اس کا نسخہ موجود ہے۔ اگر بات ویسی ہی ہے جیسے علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے کہی ہے تو یہ صراحت ِ سماع درست نہیں۔ لیکن جہاں تک پہلی بات کا تعلق ہے تو وہ محل نظر ہے کیونکہ ابو عوانہ ہی نہیں ’’صحیح بخاری‘‘ میں بھی امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ صراحتِ سماع کے لیے معلق روایت ذکر کرتے ہیں اور اس کے بارے میں حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ کہتے ہیں:لَمْ اَجِدْہُ مجھے یہ روایت نہیں ملی۔ مثلاً(بَابُ لَا یَسْتَنْجِی بِرَوْثٍ) میں جو ’’زہیر عن ابی اسحاق‘‘ کی سند سے روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں: ( وَ قَالَ اِبْرٰہِیْمُ بْنُ یُوْسُفَ عَنْ اَبِیْہِ عَنْ اَبِیْ اِسْحَاقَ حَدَّثَنِیْ عَبْدُ الرَّحْمٰنِ ) حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ اور علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ یہ تعلیقاً روایت ابو اسحاق کی تدلیس پر اعتراض کے جواب میں صراحت سماع کے لیے امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے ذکر کی ہے ۔ مگر حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:(لَمْ اَجِدْہَا) کہ اس روایت کو میں نے نہیں پایا۔[3] اس لیے اگر ایسی معلق روایت کی سند نہ بھی ملے تو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس قیل و قال کے علاوہ امام مسلم رحمۃ اللہ علیہ امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ ، ابن الجارود کا اپنی کتابوں میں اس روایت کو ذکر کرنا اس کی صحت کی دلیل ہے۔ متاخرین میں سے کسی کو اس میں ابوالزبیر کی تصریح سماع نہیں ملی تو ان کی یہ کوشش چند قلمی اور مطبوعہ کتابوں تک محدود ہے۔ ان کے اس تتبع کو متقدمین کی تحری و تتبع سے کوئی نسبت نہیں، جنھوں نے لاکھوں احادیث
[1] ۔ النکت علی ابن الصلاح،ج:2،ص:236