کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 393
میں صراحت سماع ثابت ہے۔ وہ فی نفسہ ثقہ و صدوق ہے اختلاط کے باعث اس پر کلام ہے اور جن حضرات نے اس سے اختلاط سے پہلے سنا ہے ، ان کی احادیث حسن بلکہ صحیح قرار دی گئی ہیں اور شواہد و متابعات میں بھی جب اس کی روایت مقبول ہے ، وہ مدلس کے سماع کی صراحت کردے تویہ صراحت ِ سماع مردود کیوں ہے ؟ بلاشبہ ثبوت سماع کے لیے سند کی صحت ضروری ہے مگر مدلس کا اپنے استادسے سماع تو ہوتا ہے ۔ لیکن تدلیس کی وجہ سے اس کی معنعن روایت قابل قبول نہیں ہوتی۔ اور جب ابن لھیعہ نے جو فی نفسہ ثقہ و صدوق راوی ہے ، صراحت سماع کردی تو وہ مقبول ہونی چاہیے نہ کہ مردود۔ غور فرمائیے کہ مسند امام احمد (ج:3،ص:347) کے حوالے سے ’’صحیح مسلم‘‘ کی تائید میں جو روایت ہم پیش کر آئے ہیں ، علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ نے اسے ’’السلسلۃ الصحیحۃ،رقم:2938، (ج:6،ص:1052) میں ذکر کیا ہے۔ اس کے بارے فرماتے ہیں: (رِجَالُ اِسْنَادِہِ ثِقَاتٌ رِجَالُ مُسْلِمٍ غَیْرَ ابنِ لَھِیْعَۃَ وَہُوَ ثِقَۃٌ لٰکِنَّہٗ سَیِّئُ الْحِفْظِ) اس کے بعد انھوں نے’’صحیح مسلم‘‘کی وہی روایت ذکر کی ہے جس پر مختصر صحیح مسلم للمنذری کے حاشیہ میں علامہ ذہبی رحمۃ اللہ علیہ کا کلام نقل کیا ہے اور ابو الزبیر کے عنعنہ پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔جیسا کہ باحوالہ ہم پہلے نقل کر آئے ہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں: (وَلِحَدِیْثِ التَّرْجُمَۃِ مُتَابِعٌ بِسَنَدٍ صَحِیْحٍ عَنْہُ وَ ہُوَ مَعْقَلُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ الْجَزَرِیُّ عَنْ اَبِی الزُّبَیْرِ عَنْ جَابِرٍ مَرْفُوْعًا بِلَفْظِ مُسْلِمٍ وَ مِنْ طَرِیْقِہِ الْبَغَوِیِّ فِی شَرْحِ السُّنَّۃِ وَ ابن حِبَّان وَ مَعْقَل ھٰذَا فِیْہِ کَلَامٌ مِنْ قِبَلِ حِفْظِہٖ، قَالَ الْحَافِظُ فِی التَّقْرِیْبِ: صُدُوْقٌ یُخْطِیُٔ فَقَدْ خَالَفَ ابْنَ لَہِیْعَۃَ فِیْ قَوْلِہٖ عَنِ اَبِی الزُّبَیْرِ: أَخْبَرَہُ جَابِرٌ ، وَ قَوْلُہٗ: المَدِیْنَۃ، مَکَانَ مَکَّۃَ وَ مِنَ الصَّعْبِ تَرْجِیْحُ أَحَدِ الْقَوْلَیْنِ عَلَی الآخَرِ وَ لَعَلَّ الرَّاجِحَ الجَمْعُ بَیْنَھُمَا )[1] ”یعنی اس حدیث کا سند صحیح سے متابع ہے اور وہ معقل بن عبید اللہ عن ابی الزبیر عن جابر کی سند سے یہ الفاظ ہیں: (لَا یَحِلُّ لِاَحَدٍ اَنْ یَّحْمِلُ بِمَکَّۃَ السَّلَاحَ) جسے امام مسلم، بغوی اور ابن حبان نے روایت کیا ہے۔ معقل میں حافظہ کی بناء پر کلام ہے، حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے ’’تقریب‘‘ میں صدوق یخطی کہا ہے اوراس نے ابن لھیعۃ کی مخالفت کی ہے۔ ابن لھیعۃ ، ابوالزبیر سے (اَخْبَرَہُ جَابِرٌ)کہتے ہیں اور ’’مکۃ‘‘ کی جگہ’’المدینۃ‘‘ کہتے ہیں۔ دونوں میں سے کسی ایک قول کو ترجیح دینا مشکل ہے اور شاید دونوں کو جمع کرنا راجح ہے۔‘‘
[1] ۔ صحیح بخاری ، کتاب الاعتصام بالکتاب والسنۃ میں حدیث ہے کہ ’’ جب ’’حاکم‘‘ کسی فیصلے میں اجتہاد سے کام لے اور اس کا اجتہاد درست ہو تو اس کے لیے دو اجر ہیں اور اگر کسی فیصلے میں اس کا اجتہاد غلط ہو جائے تو اس کے لیے ایک اجر ہے۔‘‘ … اہل علم ،فقہاء اور مجتہدین کا مختلف فقہی مسائل میں اختلاف اسی حدیث کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے… 25 مئی 2001ء کے ’’الاعتصام‘‘ میں شیخ الحدیث حضرت مولانا حافظ ثناء اللہ خان مدنی صاحب حفظہ اللہ نے’’صحیح مسلم‘‘کی ایک حدیث کو اپنی تحقیق کے مطابق راوی ابوالزبیر کی تدلیس کی وجہ سے ناقابلِ حجت قرار دیا تھا، جب کہ دیگر کئی ایک اہل علم کے نزدیک یہ موقف درست نہیں ہے… دراصل صحیحین کی مدلسین سے مروی احادیث کے قبول اور عدمِ قبول میں اگرچہ علمائے سلف میں اختلاف رہا ہے مگر اکثر اہل علم و تحقیق کی رائے یہی ہے کہ کی ارجحیت اور امامین جلیلین کی صحت و نقل حدیث میں حد درجہ احتیاط کی وجہ سے وہ قبولیت کا درجہ رکھتی ہیںِ… اسی موقف کی بناء پر ’’الاعتصام‘‘ کو چند حضراتِ علم و ماہرین فن حدیث کی طرف سے تنقیدیں و تحقیقی مضامین موصول ہوئے ہیں جو علمی دیانت و امانت کے تقاضوں کے پیش نظر قارئین’’ الاعتصام‘‘ کی نذر کیے جا رہے ہیں؟ (ادارہ)