کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 373
میں ایک اونٹ کو دس بکریوں کے قائم مقام قرار دیا تھا۔ [1] ٭ امام ابن ماجہ نے اپنی ’’سنن‘‘ میں اس حدیث پر بایں الفاظ تبویب قائم کی ہے:( عَنْ کَمْ تُجْزِئُ الْبَدَنَۃُ وَالْبَقَرَۃُ) یعنی کتنے آدمیوں کی طرف سے اونٹ اور گائے کافی ہو سکتی ہے ؟ اس سے معلوم ہوا کہ امام موصوف کے نزدیک اونٹ میں دس کی شراکت کا جواز ہے۔ ٭ امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اونٹ دس آدمیوں کی طرف سے کافی ہو جاتا ہے۔ اس کے لیے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنھما کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔ ٭ امام ابن حزم ’’المحَلّٰی‘‘ (7/382) میں فرماتے ہیں کہ یہی بات صحابہ سے ابن عباس(راوی حدیث) سے منقول ہے۔ ٭ امام شوکانی’’نیل الاوطار‘‘ میں فرماتے ہیں کہ ’’اونٹ کی قربانی میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ شافعیہ، حنفیہ اور جمہور اس بات کے قائل ہیں کہ اونٹ سات کی طرف سے کافی ہوتاہے۔ جب کہ عترت،اسحاق بن راہویہ، ابن خزیمہ اور ایک روایت میں ابن مسیب نے کہا ہے کہ اونٹ دس افراد کی طرف سے کافی ہو جاتا ہے اور یہی بات حق اور صواب ہے۔ [2] واضح ہو کہ حق کی معرفت کا معیار قلت و کثرت نہیں بلکہ اصل دلیل کی پیروی ہے۔قرآن میں ہے: (فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ} (النساء: 59) اَیْ اِلٰی کِتَابِ اللّٰہِ وَ سُنَّۃِ رَسُوْلِہٖ ، لَا اِلٰی آرَائِ الرِّجَالِ وَافْہَامِہِمْ۔ ”یعنی اپنے اختلاف کو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف لوٹا دو نہ کہ افرادِ امت کی آراء و افکار کی طرف۔‘‘ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا قول مشہور ہے کہ :(اَعْرِفِ الْحَقَّ تَعْرفْ اَھْلَہٗ) ”حق کی پہچان کرو، اہل حق کا تجھے علم ہو جائے گا۔‘‘ ( اَللّٰہُمَّ اَرِنَا الْحَقَّ حَقًّا وَارْزُقْنَا اِتِّبَاعَہُ وَ اَرِنَا الْبَاطِلَ بَاطِلًا وَ ارْزُقْنَا اجْتِنَابَہ) امید ہے حضرت مفتی صاحب اپنے فتوے پر نظر ثانی فرمائیں گے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا قول ہے: ( وَمُرَاجَعَۃُ الْحَقِّ خَیْرٌ مِنْ التَّمَادِی فِی الْبَاطِلِ) [3]