کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 368
سینٹ سلولیٹر مطبوعہ 1975ء۔صفحہ:347) مطلب یہ کہ تورات میں جو شریعت بیان ہوئی ہے وہ ساری کی ساری موسیٰ کی عطا کردہ نہیں ہے۔ بہتیرے احکام موسیٰ کے بعد تورات میں اضافہ کیے گئے ہیں۔ قربانیاں بھی شامل ہیں۔ قرآن کریم کی ’’سورۃ حج‘‘ آیت کریمہ 34سے بھی واضح ہے کہ قربانی ہر قوم کے لیے مقرر کی گئی تھی۔ ”قربانیوں کے کئی درجے بھی ہیں۔ بیل شاہی قربانی تھی بھیڑ اور بکری عام قربانی تھی۔ فاختہ یا جوان کبوتر غریب آدمی کی قربانی تھی۔ اور جو کی روٹی مفلس کی قربانی تھی۔‘‘ (قاموس صفحہ 745ک2) قربانی کی معروف متعلقہ اقسام یہ تھیں: 1۔ سوختنی قربانی: یہ مکمل طور پر جلا دی جاتی تھی۔ (بزبان بائبل یہ قربانیاں’’خدا کی غذا ہیں۔‘‘ (احبار 31:6) اسلم) 2۔ نذر کی قربانی: تیل اور لوبان، نمک بھی ساتھ ہوتا تھا۔ اس کا کچھ حصہ مذبح پر جلایا جاتا تھا۔ باقی کو سردار کاہن اور ان کے بیٹے کھاتے تھے۔ 3۔ سلامتی کا ذبح: اس کا ایک حصہ تو مذبح کے اوپر جلا دیا جاتا تھا۔ لیکن باقی کو قربانی گزارنے والا اور کاہن کھاتے تھے۔ (قاموس،ص:744) 4۔ عید نسح : پر قربان کیے جانے والے بکرے کا سارا گوشت کھایا جاتا ہے۔ (خروج باب:12) نذر کی روٹیاں: ہیکل میں نذر کی میز پر رکھی جاتی تھیں۔ ہر ساتویں دن خداوند کے حضور سے اٹھائی جاتی تھیں اور کاہن ان کی جگہ تازہ گرم روٹیاں رکھتے تھے۔(1۔ سموئیل 21:6) پرانی روٹیاں کاہنوں کی بالائی یافتہ تھیں۔ وہ انھیں لے کر کسی پاک جگہ کھاتے تھے۔(احبار 24:9) القصہ قربانیوں کی اقسام کا گوشت خود جلایا تھا۔ باقی قربانیوں کا تھوڑا سا گوشت مذبح پر جلا کر باقی گوشت ہیکل ( یہودی مسجد) کے مولوی اور قربانی پیش کرنے والا کھاتے تھے۔ نذر کی روٹیاں بھی حسب قاعدہ مولوی صاحبان اور انکے یار بیلی کھایا کرتے تھے۔ ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ میں قربانی کا گوشت آگ کے کھانے کی روایت ہمارے مطالعہ میں نہیں آسکی۔ بت پرستوں کے مندروں میں بتوں کے لیے جو قربانیاں کی جاتی تھیں ان کا گوشت کھایا جاتا تھا۔ (قاموس الکتاب،صفحہ: 138 ،ک:1) یہودی قربانی کا گوشت کھاتے تھے۔ قربانی کے جلائے جانے والے گوشت کو خود نذرِ آتش کرتے تھے۔ آسمان سے آگ آکر نہیں کھایا کرتی تھی۔ نذریں نیازیں بھی کھائی جاتی تھیں۔ ”نذرو نیاز کی حلت و اباحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے موجود تھی۔‘‘
[1] ۔ صحیح البخاری، باب من ذبح قبل الصلاۃ أعاد،رقم:5561