کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 366
جواب۔ سب سے پہلے نذر و نیاز کی حلّت و اباحت حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہما السلام کے لیے ہوئی جس طرح کہ ’’تفسیر قرطبی‘‘ و’’ تفسیر بیضاوی‘‘ وغیرہ میں مصرح ہے ۔اس سے ظاہر ہے کہ ان اشیاء کا استعمال انھوں نے کیا ہو گا۔ بعد میں یہی اباحت امت ِ محمدیہ کے لیے برقرار رہی۔‘‘ یہ سوال اور جواب دونوں محل نظر ہیں۔ سب سے پہلے یہ جان لینا ضروری ہے کہ مسلمانوں کے نزدیک’’قربانی کے گوشت‘‘ سے مراد اصحاب ِ استطاعت کی طرف سے بڑی عید کے موقع پر ذبح کیے جانے والے جانور کا گوشت ہے۔ گمان غالب ہے کہ سائل کا اشارہ بھی اسی قسم کے گوشت کی طرف ہے۔ لیکن یہودیوں اور عیسائیوں میں قربانی کی اصطلاح کا مفہوم و سیع ہے۔ چنانچہ مرقوم ہے: قربانی: وہ ہدیہ جو اس غرض سے پیش کیا جائے کہ ہدیہ دینے والا اور لینے والا ایک دوسرے کے قریب ہو جائیں یا باہمی رفاقت حاصل کریں۔ (قاموس الکتاب مولّفہ پادری ایف ایس خیر اللہ، مطبوعہ1984ء و صفحہ 43، کالم :3) اوّلین قربانی کا بیان بائبل کے ان الفاظ میں ہے: ’’… قائن اپنے کھیت کے پھل کا ہدیہ خداوند کے واسطے لایا اور ہابل بھی اپنی بھیڑ بکریوں کے کچھ پہلوٹھے بچوںکا اور کچھ ان کی چربی لایا اور خداوند نے ہابل کو اور اس کے ہدیہ کو منظور کیا پر قائن کو اور اس کے ہدیہ کو منظور نہ کیا۔‘‘ (بائبل کی کتاب پیدائش باب:4) بائبل کے مشہور مفسر پادری ڈملو لکھتے ہیں: ”جس طریقہ سے خدا نے اپنی تائید کا اظہار کیا۔ اس کا ذکر نہیں ہے ۔ تاہم دیکھیں قضاۃ :6:21،1۔ سلاطین 18:38،3۔ تواریخ 7:1‘‘ (تفسیر ڈملو صفحہ 11 کالم 3) مذکورہ حوالہ جات کی تفصیل یہ ہے: قضاۃ: 6:21 ’’…اس پتھر سے آگ نکلی اور اس نے گوشت اور فطیری روٹیوں کو بھسم کردیا۔‘‘ یہ اس امر کا نشان تھا کہ جدعان سے باتیں کرنے والا خدا ہی تھا۔ (1) سلاطین 18 :38: ’’ تب خداوند کی آگ نازل ہوئی اور اس نے اس سوختنی قربانی کو بکریوں اور پتھروں اور مٹی سمیت بھسم کردیا اور اس پانی کو جو کھائی میں تھا چاٹ لیا۔‘‘ اس موقع پر ایلیاہ نبی کی صداقت جتانا مقصود تھا۔ (2) ۔ تواریخ 7:1 ’’ اور جب سلیمان دعاء کر چکا تو آسمان پر سے آگ اُتری اور سوختی قربانی اور ذبیحوں کو بھسم کردیا۔‘‘
[1] ۔ فتح الباری:2/462