کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 358
جواب۔ واقعی حج زندگی میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔ ایسے شخص کو چاہیے کہ فرض ادا کرنے کے بعد دیگر اعمال خیر پر توجہ مرکوز کرے اور اگر کسی وقت کوئی نفلی حج کرلے، تو بہر صورت اس کا بھی جواز ہے۔ حج اور عمرہ کی ترغیب میں وارد عمومی احادیث اس پر دال ہیں۔ فرمایا:
( العُمْرَۃُ إِلَی العُمْرَۃِ کَفَّارَۃٌ لِمَا بَیْنَہُمَا، وَالحَجُّ المَبْرُورُ لَیْسَ لَہُ جَزَاء ٌ إِلَّا الجَنَّۃُ) [1]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حج اس لیے کیا کہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحلت فرما گئے۔ لیکن حجۃ الوداع میں ہی آئندہ حج کی خواہش کا اظہار فرمایا ہے۔
( لَعَلِّی لَا أَحُجُّ بَعْدَ حَجَّتِی ہَذِہِ) [2] ممکن ہے میں اس سال کے بعد حج نہ کر سکوں۔‘‘
اس سے معلوم ہوا کہ متعدد بار حج کا جواز ہے۔ بعد میں خلفائے راشدین کا عمل بھی اس کا مؤید ہے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج؟
سوال۔فوت شدہ آدمی کی طرف سے اُسی کی رقم سے یا اپنی رقم سے کسی دوسرے کو حج کروایا جاتا ہے۔ ایسے ہی عید پر فوت شدہ افراد کی طرف سے قربانی بھی کی جاتی ہے۔ ہمارے علاقے میں ایک آدمی نے سات حج کیے ہیں، ایک تو اپنی طرف سے اور باقی نبی کریم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی طرف سے۔ مہربانی فرما کر قرآن وحدیث کی روشنی میں اس عمل کی شرعی حیثیت کی وضاحت کر دیں۔ (سائل) (مارچ 2005ء)
جواب۔ ’’صحیح مسلم‘‘ میں مروی ہے کہ ایک صحابیہ رضی اللہ عنہا نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ میری ماں نے حج نہیں کیا تھا، وہ وفات پا چکی ہے، کیا میں اس کی طرف سے حج کر سکتی ہوں؟ فرمایا:
( حُجِّیْ عَنْہَا) ’’ اُس کی طرف سے تو حج کر۔‘‘
اس روایت سے معلوم ہوا کہ فوت شدہ کی طرف سے حج ہو سکتا ہے۔ اسی طرح فوت شدہ کی طرف سے قربانی کرنا بھی جائز ہے، تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: فتاویٰ علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمۃ اللہ علیہ ۔
لیکن بالخصوص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے حج کرنے کا کوئی ثبوت نہیں، اگر یہ فعل مشروع ہوتا تو صحابہ کرام صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حق دار تھے لیکن اُن سے یہ عمل ثابت نہیں۔
قاتل یا سود خور وغیرہ کو حج کی فضیلت حاصل ہو گی؟
سوال۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے کہ جو آدمی حج کر لیتا ہے وہ ایسے ہو جاتا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے پیدا ہوتا ہے۔ قتل ،
[1] ۔ تاریخ کعبۃ المعظمۃ،ص:327، بحوالہ حسین عبداللہ باسلامہ منائح الکرم
[2] ۔ جس میں کسی دوسری عمارت کو شریک نہیں کرنا چاہیے اسی لیے وہ حتی المقدور اچھا ہونا چاہیے گھٹیا قسم کے کپڑوں سے کسی کا کیا احترام ہوگا۔(ن۔ح۔ن)
[3] ۔ سنن الترمذی،رقم: 2476
[4] ۔ کسی عمارت کو یا زیب و زینت کی خاطر ڈھانکا جاتا ہے(جیسے گھروں میں پردے لٹکانا) یا اَدب و احترام کی خاطر ( جیسے کعبۃ اللہ پر غلاف چڑھایا جاتا ہے) ترمذی کی اس روایت سے معلوم ہوا کہ جب گھروں کو زیب و زینت کے خیال سے ڈھانکنا بھی شرعاً پسند نہیں کیا گیا تو پھر عمارت کو کسی ادب و احترام کی خاطر ڈھانکنا کیسے جائز ہو سکتا ہے کیوں کہ اس سے کعبۃ اللہ کے امتیاز و تشخص کا مجروح ہونا اور اس کی خصوصیات میں دوسری عمارتوں کا شریک ہونا لازم آتا ہے۔(ن۔ح۔ن)
[5] ۔ فتح الباری:3/462 بَابُ مَا ذکر فی الحجر الاَسْوَد