کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 349
ظہر کی نماز کے بعد چل کر عصر سے پہلے ذوالحلیفہ پہنچ کردو رکعت عصر پڑھی پھر وہیں رات گزاری۔[1] صبح ہونے پر فرمایا کہ آج رات میرے رب کی طرف سے ایک آنے والے نے کہا کہ اس مبارک وادی میں نماز پڑھو اور کہو کہ حج میں عمرہ ہے۔[2] معلوم ہوتا ہے کہ اسی روایت سے اخذ کیا گیا ہے کہ احرام کی نیت سے دو نفل ادا کیے جائیں مگر بعض علمائے کرام (پاکستانی وسعودی) سے معلوم ہوا کہ احرام کی نیت سے دو نوافل سنت نہیں یعنی صراحتاً اس کا ذکر نہیں ملتا بلکہ اس روایت میں بھی ایسا نہیں۔ ہوسکتا ہے کہ فرشتے نے صبح کی نماز کا اشارہ دیا ہو کہ بجائے مسجد کے اسی مبارک وادی میں ادا کرلیں اور پھر احرام باندھیں۔ چنانچہ بخاری کے ابواب ( بَابُ مَنْ بَاتَ بِذِی الحُلَیْفَۃِ حَتَّی أَصْبَحَ، بَابُ رَفْعِ الصَّوْتِ بِالإِہْلاَلِ اور التَّلْبِیَۃ)کی روایات سے مترشح ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز کے بعد اونٹنی پر سوار ہوکر احرام باندھ کر تلبیہ پکارتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں کئی دفعہ احرام باندھا تو ان کے متعلق صراحتاً حکم یا عمل نہیں ملتا کہ نیت احرام کے دو نفل ادا کیے جائیں۔ وضاحت فرما دیں کہ کس حوالے سے اسے سنت تصور کیا جاتا ہے؟ (سائل: ڈاکٹر عبید الرحمن چودھری)(6 اپریل 2007ء) جواب۔ احرام کی نیت سے دو نفل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔ علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَلَمْ یُنْقَلْ عَنْہُ (صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ) أَنَّہُ صَلَّی لِلْإِحْرَامِ رَکْعَتَیْنِ غَیْرَ فَرْضِ الظُّہْرِ) [3] ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول نہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے احرام کی نیت سے دو رکعتیں پڑھی ہوں سوائے ظہر کے فرض کے۔‘‘ اور ’’سنن ابی داؤد‘‘ کی روایت میں جو یہ الفاظ ہیں: (فَلَمَّا صَلَّی فِی مَسْجِدِہِ بِذِی الْحُلَیْفَۃِ رَکْعَتَیْہِ) [4] ”جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ذوالحلیفہ کی مسجد میں دو رکعتیں ادا کیں‘‘ سے مراد ظہر کی قصر نماز ہے اور مولانا کی تشریح بہ نیت نماز احرام محل نظر ہے۔ بوقت احرام جس نماز کا ذکر ہے وہ ظہر کی نماز ہے۔ جس طرح کہ
[1] ۔ قرطبی:12/168