کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 346
درست ہو گا۔ اگر اس کا کوئی جعلی محرم بنا کر حج پر بھیج دیا جائے جب کہ اسی علاقے سے مزید عورتیں بھی حج پر جا رہی ہیں؟۔ (سائل محمد شفیع طاہر، مدینہ منورہ ) (20 نومبر 1998ء) جواب۔ مسئلہ ہذا میں اگرچہ اہل علم کا اختلاف ہے لیکن ظاہر یہ ہے کہ مذکورہ عورت ثقہ دیندار عورتوں کی جماعت کے ساتھ حج کا سفر اختیار کر سکتی ہے۔ وفات النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد عہد ِ عمر رضی اللہ عنہ میں ازواجِ مطہرات کا عمل جواز کا مؤید ہے۔ امام شافعی، امام مالک، اوزاعی، ابن سیرین ،عطاء، سعید بن جبیراور دیگر بعض ائمہ رحمۃ اللہ علیہم جواز کے قائل ہیں۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب ’’الموطأ‘‘ میں عنوان قائم کیا ہے: (حَجُّ الْمَرْأَۃِ بِغَیْرِ ذِی مَحْرَمٍ) یعنی ’’امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا ہے کہ جس عورت کا خاوند نہیں اور اس نے حج نہیں کیا اگر اس کا کوئی محرم نہ ہو یا ہو مگر ساتھ نہ جا سکے تو وہ عورت فریضۂ حج ترک نہ کرے بلکہ دوسری عورتوں کے ساتھ جائے اور حدیث میں ہے: ( لاَ تَمْنَعُوا إِمَائَ اللّٰهِ مَسَاجِدَ اللّٰهِ ) [1] ”اللہ کی بندیوں کو مسجدوں سے مت روکو۔‘‘ حدیث ہذا کا سبب اگرچہ خاص ہے لیکن قاعدہ مسلم ہے : (اَلْعِبْرَۃ بِعُمُوْمِ اللَّفْظِ لَا بِخُصُوصِ السَّبَبِ) ”لہٰذا فرضی تقاضا پورا کرنے کا کوئی حرج نہیں۔‘‘ غیر محرم کے ساتھ عورت کا سفرِ حج و عمرہ سوال۔ کچھ افراد عمرے کے لیے جا رہے ہیں۔ ان میں مرد بھی ہیں اور خواتین بھی۔ خواتین محرم بھی ہیں۔ اور غیر محرم بھی آپ کتاب و سنت کی روشنی مین آگاہ فرمائیں کہ کیا یہ سفر جائز ہے؟ (طاہر مبین،اچھرہ لاہور) (22 دسمبر2000ء) جواب۔ مسئلہ ہذا میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”عطائ، سعید بن جبیر، اوزاعی، امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور دیگر بہت سے ائمہ کا کہنا ہے کہ عورتوں کی جماعت ہو تو جائز ہے کیونکہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر معاون بن جاتی ہیں اور دل مطمئن ہو جاتا ہے جب کہ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے باب ہی یہ باندھا ہے کہ(حَجُّ الْمَرْأَۃ بِغَیْرِ ذِیْ مَحْرَمٍ) ’’یعنی امام مالک رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جس عورت کا خاوند نہیں اور اس نے حج نہیں کیا، اگر ان کا کوئی مرد نہ ہو یا ہو مگر ساتھ نہ جا سکے تو وہ عورت فریضۂ حج ترک نہ کرے بلکہ دوسری عورتوں کے ساتھ جائے۔‘‘ [2]
[1] ۔ صحیح ابن خزیمۃ،بَابُ ذِکْرِ الْبَیَانِ أَنَّ الْعُمْرَۃَ فَرْضٌ وَأَنَّہَا مِنَ الْإِسْلَامِ کَالْحَجِّ …الخ ،رقم:6530، السنن الکبرٰی للبیہقی،بَابٌ مَنْ قَالَ بِوُجُوبِ الْعُمْرَۃِ اسْتِدْلَالًا بِقَوْلِ اللہِ تَعَالَی (وَأَتِمُّوا الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ لِلَّہِ) …، رقم:8766 [2] ۔ سنن ابن ماجہ،بَابُ الْحَجُّ، جِہَادُ النِّسَاء ِ،رقم:2901 [3] ۔ سنن الترمذی،بَابُ مَا جَائَ فِی ثَوَابِ الحَجِّ وَالعُمْرَۃِ، رقم:810