کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 338
(اِتَّقُوا مَوَاضِعَ التُّہَمِ)[1] ” اپنے کو بدظنی کے مقام سے بچانا چاہیے۔‘‘ باپ کے پیسے چوری کرکے غریب اور مستحق گھرانے کی مدد کرنا: سوال۔ ہم گھر کے 8 افراد ہیں۔ کمانے والے دو ہیں۔ ایک والد صاحب جن کی پنشن اور زرعی اراضی کی آمدنی ہے۔ اور ایک بھائی صاحب جو ڈاکٹر ہیں۔والد صاحب ماہانہ تین ہزار اور بھائی صاحب ماہانہ ۴ ہزار روپے خرچ کے لیے دیتے ہیں۔ جو ملا کر 7000 روپے بنتے ہیں۔ اس مہنگائی کے دَور میں کفایت شعاری سے خرچ کرنے کے باوجود خرچ آمدن سے بڑھ جاتا ہے۔ ماہانہ خرچ کا حساب کتاب والدہ صاحبہ کے پاس ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ 7000روپے میں خرچ بہت مشکل ہوتاہے۔ والدہ صاحبہ پریشان رہتی ہیں۔ شوگر کی مریض ہیں۔ میں والد صاحب کی اجازت کے بغیر ہزار پانچ سو روپے نکال کر دیتی ہوں جو گھر میں خرچ ہوتے ہیں۔ والدہ صاحبہ کی پریشانی تھوڑی کم ہو جاتی ہے۔ لیکن ضمیر مجھے پریشان کیے رکھتے ہے کہ کہیں چوری نہ سمجھی جائے۔ والدہ صاحبہ اپنی ذات کے لیے کنجوس ہیں، دوسروں کے لیے نہیں۔ غریبوں کی صدقہ ،زکوٰۃ( خصوصاً قرضِ حسنہ) سے امداد کرتی رہتی ہیں۔ ان کی گھریلو اخراجات کی پریشانی مجھ سے نہیں دیکھی جاتی۔(نصرت ہاشمی مزنگ چونگی) (21جون 1996ء)) جواب۔ گھریلو اخراجات اگر سات ہزار ماہانہ سے پورے نہیں ہوتے تو اس کا بہتر اور مناسب حل یہ ہے کہ مہنگائی کے پیش نظر والد صاحب سے اضافہ کا مطالبہ کیا جائے۔ ان کی اجازت کے بغیر والدہ صاحبہ کو مزید رقم دینا یہ درست فعل نہیں۔ پھر ایسی رقم سے اگر صدقہ خیرات بھی کیاجائے تو وہ مقامِ قبولیت کو نہیں پاتا کیونکہ انفاق میں صاحبِ مال کے لیے ثواب کی نیت کرنا ضروری ہے۔ جو یہاں مفقود ہے۔ عورت کا خاوند سے بلااجازت اللہ کی راہ میں مال خرچ کرنا: سوال۔عورت اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر اشیاء روپے پیسے وغیرہ کسی کو دے سکتی ہے اگر اس کا اپنا مال ہو کیا پھر بھی اجازت لینا پڑے گی؟ (سائل) (9اپریل 1999ء) جواب۔ راہِ للہ مال خرچ کرنے کے لیے شوہر کی طرف سے اجمالی اجازت ہونی چاہیے۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ کا اختیار یہی ہے ۔ دیگر اہل علم کے نزدیک صریح اذن ضروری ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: عون المعبود (2/75) اگر اس کا اپنا مال ہو تب وہ خرچ کرنے میں آزاد ہے۔
[1] ۔ صحیح البخاری کتاب الزکاۃ ،بَابُ وُجُوبِ الزَّکَاۃِ،رقم:1395