کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 332
”نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، معاذ اہل یمن کو اس بات سے آگاہ کرنا کہ اللہ نے ان پر زکوٰۃ فرض کی ہے۔ ان کے مالداروں سے لے کر انہی کے محتاجوں پر اسے لوٹایا جائے۔‘‘ اس حدیث سے اس امر کی تائید لی جا سکتی ہے۔ (قَالَ الْإِسْمَاعِیلِیُّ ظَاہِرُ حَدِیثِ الْبَابِ أَنَّ الصَّدَقَۃَ تُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِ من أخذت من أغنیائہم)[1] اس سے یہ بات مترشح ہے کہ مقامی حق داروں کا خیال نہ رکھنا حقوق غصب کرنے کے مترادف ہے جو مومن کی شان سے بعید ہے۔ لہٰذا جہادی مہم کے علمبرداروں کے لیے ضروری ہے کہ غیروں کے استحقاقات کو بھی نظر میں رکھیں۔ اصل یہ ہے کہ ہر جگہ مقامی بیت المال قائم کیا جائے اور مستحقین کا اندراج کیا جائے۔ پھر ہر صاحب حاجت کا خیال رکھا جائے۔ مقامی ضروریات کے علاوہ جہادی مہم میں بھی بھرپور حصہ لینا چاہیے۔ مسلمانوں کی جہادی تنظیموں کے ذمہ داران پر فرض عائد ہوتا ہے کہ آپس میں متحد ہو کر (وَإِنَّمَا الإِمَامُ جُنَّۃٌ یُقَاتَلُ مِنْ وَرَائِہِ)[2] کا نقشہ پیش کریں بصورتِ دیگر صحیح نتائج کی توقع کرنا عبث ہے۔ افغانستان کی واضح مثال اس وقت ہمارے سامنے ہے۔ صالح قیادت کے فقدان کی وجہ سے فوائد و ثمرات کا حصول مشکل امر بنا ہوا ہے۔ لَا حَوْلَ وَ لَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللّٰہِ نیز امراء جہاد کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے میں اللہ کے ہاں جوابدہی کا احساس پیدا کریں کہ ہم نے عدالتِ عالیہ الٰہیہ میں پائی پائی کا حساب دینا ہے۔ اس وقت کی آمد سے قبل قوم کو بھی اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ اپنے عمال سے حساب لیتے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے لوگ سر محفل حساب پوچھا کرتے تھے۔ کتاب الاموال اور کتاب الخراج ابویوسف میں اس کی مثالیں موجود ہیں۔ رسول ِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں جہاد کے عام مالی موارد مالِ فئی، خراج، مال غنیمت وغیرہ ہوا کرتے تھے۔(جُعِلَ رِزْقِی تَحْتَ ظِلِّ رُمْحِی)[3] بوقت ضرورت عمومی صدقہ مصرف ’’فی سبیل اللہ‘‘کے ضمن میں مالِ زکوٰۃ وغیرہ بھی شامل ہے۔ مجاہدین اور مقامی طلبہ میں سے زکوٰۃ کا زیادہ حق دار کون ہے؟ سوال۔ہم لوگ اﷲ کے فضل و کرم سے صاحب مال و جائیداد ہیں اور ہر سال اﷲ کی توفیق سے زکوٰۃ بھی ادا کر رہے