کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 319
(فَلْتَحُجَّ عَلَیْہِ، فَإِنَّہُ فِی سَبِیلِ اللَّہِ) [1] اور ’’منتقیٰ الاخبار ‘‘کے بَابُ الصَّرْف فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ میں بحوالہ ’’مسند احمد‘‘ حدیث ہے: (اَلْحَجُّ وَالْعُمْرَۃُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ) [2] ”یعنی حج اور عمرہ دونوں ’’فی سبیل اللہ‘‘میں داخل ہیں۔‘‘ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (وَأَحَادِیثُ الْبَابِ تَدُلُّ عَلَی أَنَّ الْحَجَّ وَالْعُمْرَۃَ مِنْ سَبِیلِ اللَّہِ) [3] ”باب کی احادیث اس بات پر دال ہیں کہ حج اور عمرہ ’’فی سبیل اللہ‘‘سے ہیں۔‘‘ اور جہاد بالاتفاق مراد ہے ۔ ’’فی سبیل اللہ‘‘سے مراد اگر عام لیا جائے تو مصارفِ زکوٰۃ میں فقراء و مساکین کو ذکر کرنے کی ضرورت باقی نہیں رہتی کیونکہ ’’فی سبیل اللہ‘‘میں وہ بھی داخل ہیں۔ ان کی علیحدہ تصریح سے معلوم ہوا ’’فی سبیل اللہ‘‘سے مراد خاص ہے اور وہ جہاد اور حج عمرہ ہیں۔ لہٰذا مسجدوں پر زکوٰۃ خرچ نہیں کرنی چاہیے۔ مدرسہ کی جگہ کو مسجد میں تبدیل کرنا اور زکوٰۃ سے تیار کی گئی مسجد میں نماز کی ادائیگی سوال۔آج سے چند سال قبل باغبانپورہ گوجرانوالہ میں ایک وقف قطعہ زمین پر حکومت کی اجازت سے محلہ کے بچوں کی دینی تعلیم کے لیے مدرسہ انوار التوحید کی عمارت تعمیر کی گئی۔ صبح و شام بچے قرآن پاک پڑھتے رہے۔ عمارت پر عطیات اور زکوٰۃ کی رقم خرچ ہوئی۔ اب اہل محلہ نے مستقل طور پر اس مدرسہ کو مسجد کی شکل دے کر نماز باجماعت شروع کی ہے۔ ایک عالم ِ دین نے اعتراض کیا ہے کہ اس عمارت پر زکوٰۃ بھی خرچ ہوئی ہے۔ لہٰذا یہاں نماز پڑھنا ناجائز ہے۔ آپ کتاب و سنت کی روشنی میں بیان فرمائیں کہ ہم کیا کریں۔ اگر ہم نے نماز باجماعت نہ شروع کی تو خدشہ ہے دوسرے لوگ اس پر قبضہ کرکے خلافِ شریعت کام کی ابتداء کردیں گے۔ تمام حالات کو مد نظر رکھ کر جواب ارشاد فرمائیں۔ (محمد بشیر گوجرانوالہ) (10جولائی 1998ء) جواب۔ اندریں حالات مدرسہ کی جگہ کو مسجد کی صورت میں تبدیل کیا جا سکتا ہے ۔ قرآن میں مصارف زکوٰۃ میں لفظ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کو بعض اہل علم نے عموم پر محمول کیا ہے۔ تفسیر فتح البیان، تفسیر خازن اور تفسیر کبیر وغیرہ میں اس امر کی تصریح موجود ہے۔ چنانچہ تفسیر کبیر میں ہے یعنی اس بات کو جان لے کہ لفظ ’’فی سبیل اللہ‘‘ کا ظاہر عام ہے۔ غازیوں پر