کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 316
زکوٰۃ و صدقات کی رقم سے قاری صاحب کی تنخواہ سوال۔ایک جماعت کے افراد تھوڑے اور مالی لحاظ سے کمزور ہیں۔ وہ اپنی مسجد میں قاری صاحب کی تنخواہ دینے کی طاقت نہیں رکھتے۔ جب کہ اس کے بغیر مسجد کی آبادی ممکن نہیں۔ کیا دوسرے قریبی گاؤں والے اپنی زکوٰۃ و صدقات میں سے مذکورہ قاری صاحب کی تنخواہ میں تعاون کر سکتے ہیں۔ یاد رہے مذکورہ بالا مسجد میں صرف مقامی بچے قرآنِ پاک کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔(سائل:عبدالستار خطی، سمبلہ خورد) (17 دسمبر1999ء) جواب۔ بچوں کو پڑھانے والے قاری صاحب کو زکوٰۃ و صدقات سے تنخواہ دی جا سکتی ہے۔ تعاون چاہے اہل قریہ سے ہو یا غیر سے ، دونوں صورتیں یکساں ہیں۔ قرآن میں ہے: (لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ) (البقرۃ:273) اس آیت سے پہلے صدقات کا ذکر ہے۔ پھر فرمایا ۔ یہ صدقات ان فقیروں کے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں بند ہیں۔ زمین میں سفر نہیں کر سکتے۔ یعنی تجارت وغیرہ نہیں کر سکتے۔(کیونکہ سفر کرنے سے دین کا کام رک جاتا ہے) ویسے اصل یہ ہے کہ گاؤں میں ایک بیت المال ہو جس میں عشر، زکوٰۃ، قربانی کی کھالیں اور دیگر صدقات و خیرات جمع ہوں اور اس بیت المال سے تعلیم پر نہ کہ امامت پر اس کی کچھ تنخواہ مقرر کردی جائے تو اس طریق سے لینا شرعاَ درست ہے ، کیوں کہ یہ اجرت تعلیم ہے نہ کہ اجرتِ امامت۔ (ملخصاً فتاویٰ اہل حدیث) زکوٰۃ کے مال سے مدرس کی تنخواہ سوال۔ ہمارے موجودہ معاشرے میں زکوٰۃ کا کاروبار ایک مصرف دینی مدارس ہیں۔ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں یا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے دَور میں دینی مدارس کو زکوٰۃ دی جاتی تھی۔ اب ہمارے ان مدارس میں کچھ بچے ایسے بھی ہیں کہ جن کے والدین مالدار ہوتے ہیں۔ ان بچوں کے قیام و طعام کے اخراجات مدرسہ ہی برداشت کرتا ہے کیا ان بچوں پر زکوٰۃ کی رقم خرچ ہو سکتی ہے؟ اساتذہ کرام کی تنخواہیں بھی اسی فنڈ سے ادا کی جاتی ہیں۔ کیا یہ موجودہ مصرف جائزہے؟ (محمد اشرف ضلع جہلم) (5 جون 1998ء) جواب۔ دینی مدارس میں زکوٰۃ کے مستحق امیر کے علاوہ صرف غریب طلبہ ہیں۔ زکوٰۃ کے مال سے مدرس کو بھی تنخواہ دی جا سکتی ہے۔ لیکن اگر غنی ہو تو اُسے بچنا چاہیے۔ اس امر کی تائید قرآن کی اس آیت سے بھی ہوتی ہے۔ (لِلْفُقَرَآئِ الَّذِیْنَ اُحْصِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَا یَسْتَطِیْعُوْنَ ضَرْبًا فِی الْاَرْضِ) (البقرۃ:273) یہ صدقات ان فقیروں کے لیے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے راستہ میں بند ہیں۔ زمین میں سفر نہیں کر سکتے یعنی تجارت
[1] ۔ سنن أبی داؤد،بَابُ الْعُرُوضِ إِذَا کَانَتْ لِلتِّجَارَۃِ، ہَلْ فِیہَا مِنْ زَکَاۃٍ، رقم: 1562 ، اسنادہ حسن