کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 302
جائے۔ البتہ مزدوری کی اجرت کاٹی جاسکتی ہے۔ اسی طرح ٹھیکہ اور مالیہ نکال کر عشر ادا کرے اور آبیانہ الگ نہ کرے کیونکہ نہری زمین کو کنوئیں کے حکم میں سمجھنا چاہیے یعنی عشر کی بجائے نصف عشر یعنی بیسواں حصہ ادا کرے۔ سوال میں مذکورہ مجمل خرچ کو اسی معیار پر پرکھنا چاہیے۔ زمین کا عشر ٹھیکیدار ادا کرے گا یا کاشتکار؟ سوال۔جو زمین ٹھیکہ پر دی جائے اس کے بارے میں عشر کا کیا حکم ہو گا مالک زمین عشر دے یا ٹھیکہ پر لینے والا یا دونوں، مزید یہ کہ مالک زمین کس حساب سے عشر ادا کرے یا پھر وصول شدہ رقم کا دسواں حصہ عشر دے دے؟ (محمد یحییٰ عزیز کوٹ رادھا کشن،قصور) (15 جولائی 1994ء) جواب۔زمین ٹھیکہ پر لینے والا آدمی پہلے ٹھیکہ وضع کرے پھر باقی آمدن پر عشر ادا کرے۔ مالک زمین پر عشر نہیں۔ وہ صرف حاصل شدہ رقم سے سال گزرنے پر زکوٰۃ ادا کرے گا بشرطیکہ وہ سال بھر جمع رہے۔ عشر کتنے من جنس پر واجب ہوتا ہے؟ سوال۔کتنے مَن جنس پر عُشر واجب ہو جاتا ہے۔ نیز عشر کل پیداوار کا دیا جائے یا پھر جو اپنے حصے میں آئے صرف اُسی کا۔ اگر ساری پیداوار کا دینا ہے تو کیا صرف مالک زمین ہی دے یا مزارع بھی اپنے اپنے حصوں سے دیں۔ (خالد مصطفی ۔ ایس ایس ٹی گورنمنٹ نسیم ہائی سکول حاصلانوالہ تحصیل پھالیہ ضلع گجرات) (17جنوری 1992ء) جواب۔ نہری زمین بیس من سے ایک من اور بارانی دس من سے ایک من عشر ادا کرنا واجب ہے۔ حدیث میں ہے: ( فِیْمَا سَقَتِ السَّمَائُ وَالْعُیُونُ اَو کَانَ عَثَرِیًّا الْعشْرُ وَ مَا سُقِیَ بِالنَّضْحِ نِصْفُ الْعُشرِ) [1] ” یعنی جس کھیتی کو آسمان یا چشمے پانی پلائیں یا خود زمین کی رگوں سے پانی پیے اس میں عشر ہے اور جس کو اونٹوں وغیرہ سے پانی پلایا جائے اس میں نصف عشر واجب ہے۔‘‘ مالک اور مزارع دونوں اپنے حصص کی نسبت سے عشر ادا کریں۔ قرآن مجید میں ہے: (وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ ) (البقرۃ:267) ”جو کچھ ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالاہے اس سے خرچ کرو۔‘‘ اوردوسری جگہ ہے: