کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 291
وجوبِ زکوٰۃ کے قائل ہیں جب کہ معدودے(چند) نفی کے قائل ہیں۔ اور بعض کے ہاں صرف زرعی پیدوار میں عشر واجب ہے اس کے علاوہ کوئی شے واجب نہیں۔ چند عمومی اور بعض خصوصی دلائل پہلے موقف کے مؤید ہیں، چنانچہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کی مشہور صحیح حدیث میں ہے: (تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِیَائِہِمْ فَتُرَدُّ عَلَی فُقَرَائِہِمْ) (مختصر المنذری لسنن ابی داؤد2/300) [1] یعنی ’’زکوٰۃ مالداروں سے لے کر محتاجوں میں تقسیم کی جائے۔‘‘ حدیث ِ ہذا میں لفظ اغنیاء غنی کی جمع ہے۔ لفظ غنی اپنے عموم کے اعتبار سے یتیم کو بھی شامل ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ یتیم کے مال میں زکوٰۃ واجب ہے۔ علاوہ ازیں زکوٰۃ کا تعلق من وجہ عین مال سے بھی ہے جو وجوب کی دلیل ہے۔ نیز کچھ مخصوص احادیث بھی پہلے قول کی مؤید ہیں۔ مثلاً ایک روایت میں ہے: ( أَلاَ مَنْ وَلِیَ یَتِیمًا لَہُ مَالٌ فَلْیَتَّجِرْ فِیہِ، وَلاَ یَتْرُکْہُ حَتَّی تَأْکُلَہُ الصَّدَقَۃُ) [2] ”یعنی جو مالدار یتیم کا نگران ہو چاہیے کہ وہ اس کے مال کو تجارت میں لگائے رکھے۔ کہیںاسے زکوٰۃ ہی ختم نہ کر ڈالے۔‘‘ نیز طبرانی اوسط میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً روایت ہے: (اتَّجِرُوا فِی أَمْوَالِ الْیَتَامَی، لَا تَأْکُلُہَا الزَّکَاۃُ) [3] ”یعنی یتیموں کے مال میں تجارت کرو کہیں اسے زکوٰۃ نہ کھا جائے۔‘‘ اگرچہ مصرح روایات اسانید کے اعتبار سے کچھ کمزور ہیں لیکن عموماتِ شریعت اور آثارِ صحابہ صحیحہ اور اقوال ائمہ عظام سے پہلے مسلک کو مزید تائید و تقویت حاصل ہوتی ہے۔ اس لیے راجح بات یہی ہے کہ یتیم کی جمع شدہ رقم میں زکوٰۃ واجب ہے۔ تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: تحفۃ الاحوذی(2/296 تا 300، طبع مصری) یاد رہے اس بارے میں چند سال قبل ’’تنظیم اہل حدیث‘‘ لاہور میں میرا ایک تفصیلی فتویٰ بھی شائع ہو چکا ہے۔ (ہٰذَا مَا عِنْدِیْ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَابِ وَ عِلْمُہٗ اَتَمُّ)