کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 272
ہے۔‘‘اور حافظ ابن حجر نے ’’تقریب‘‘ میں کہا ’’یہ راوی ضعیف ہے۔‘‘ مزید وضاحت کے لیے مفصل کتابیں ملاحظہ کی جا سکتی ہیں۔ اختصار کے پیش نظر ہم نے اسی پر اکتفا کی ہے۔ پھرموصوف نے بحث کے اختتام پر ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کی ہے جو بخاری اور مسلم میں بایں الفاظ ہے: (اَنَّ رَسُوْلَ اللّٰہِ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ سَلَّمَ کَانَ یَعْتَکِفُ فِی الْعَشْرِ الاَوْسَطِ مِنْ رَمضَانَ فَاعْتَکَفَ عَامًا حَتّٰی اِذَا کَانَ لَیْلَۃَ اِحْدَی وَ عِشْرِیْنَ وَ ھِیَ لَیْلَۃُ الَّتِی یَخْرُجُ مِنْ صَبِیْحَتِہَا من اعْتِکَافِہ قَالَ مَن کَانَ اِعْتَکَفَ مَعِی فَلْیَعْتَکَفِ الْعَشْرَ الْاَوَاخِرِ) اس کا ترجمہ مضمون نگار کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں: ”ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے درمیانی عشرہ کا اعتکاف کیا کرتے تھے۔ پس ایک سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف فرمایا یہاں تک کہ جب اکیسویں رات آئی اور یہ وہ رات تھی کہ جس کی صبح کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اعتکاف سے اٹھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہتا ہے تو وہ آخری عشرہ کا اعتکاف کرے۔‘‘ پھر فرماتے ہیں اس سے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ آخری عشرہ کا آغاز اکیسویں سے ہوتا ہے اور بیسویں کی صبح کو اعتکاف بیٹھنا مفروضے پر مبنی ہے۔ تعجب ہے صاحب موصوف اس حدیث کو نہیں سمجھ پائے ان کے ترجمہ کے مطابق حدیث کا مفہوم یہ ہوگا کہ اکیسویں رات کی صبح کو اعتکاف ترک کردیا جائے دراں حالیکہ اہل علم سے کوئی اس بات کا قائل نہیں یہاں تک کہ خود آپ بھی اس بات کے قائل نظر نہیں آتے۔ اب اس روایت کو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہا کی دوسری روایت کی روشنی میں سمجھنا چاہیے۔ اس کے الفاظ یوں ہیں، فرمایا: ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے : (اعْتَکَفْنَا مَعَ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ العَشْرَ الأَوْسَطَ مِنْ رَمَضَانَ، فَخَرَجَ صَبِیحَۃَ عِشْرِینَ فَخَطَبَنَا، وَقَالَ: إِنِّی أُرِیتُ لَیْلَۃَ القَدْرِ… )الخ‘ اس حدیث پر امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی’’صحیح‘‘ میں یوں تبویب قائم کی ہے: (بَابُ الِاعْتِکَافِ وَخَرَجَ النَّبِیُّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ صَبِیحَۃَ عِشْرِینَ ) اس سے معلوم ہوا یہ واقعہ بیس کی صبح کا ہے نہ کہ اکیسویں کی صبح کا۔ اس ترجمہ سے مصنف کا مقصود مالک کی سابقہ حدیث جو مالک کے واسطہ سے ابوسعید خدری سے مروی ہے، اس کی تشریح کرنی چاہتے ہیںکہ اس روایت میں بھی مراد بیسویں کی صبح ہے نہ کہ اکیسویں کی صبح۔ قاعدہ معروف ( اَلْأَحَادِیْثُ یُفَسِّرُ بَعْضُھَا بَعْضَھَا وَ ھِیَ اللَّیْلَۃُ الَّتِیْ یَخْرُجُ مِنْ اِعْتِکَافِہٖ
[1] ۔ صحیح البخاری، باب الاعتکاف وخروج النبی صبیحۃ عشرین [2] ۔ صحیح مسلم،بَابُ مَتَی یَدْخُلُ مَنْ أَرَادَ الِاعْتِکَافَ فِی مُعْتَکَفِہِ،رقم: 1172، سنن أبی داؤد، بَابُ الِاعْتِکَافِ، رقم:2464