کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 264
نوٹ: حوالہ دیتے وقت کتاب کا نام اور باب اور صفحہ درج فرمادیں تاکہ آسانی سے تلاش کیا جا سکے نوازش ہو گی۔منجانب(ماسٹر احمد دین۔ کوٹ رادھا کشن) (22 مارچ 1996ء) جواب۔ سب سے پہلے اہل شرع کے ہاں اعتکاف کی تعریف ملاحظہ فرمائیں تاکہ اصل مسئلہ سمجھنے میں آسانی رہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں: ( الْمَقَامُ فِی الْمَسْجِدِ مِنْ شَخْصٍ مَخْصُوصٍ عَلَی صِفَۃٍ مَخْصُوصَۃٍ) ”یعنی مخصوص شخص کا مخصوص صفت پر مسجد میں ٹھہرے رہنے کا نام اعتکاف ہے۔‘‘ اس تعریف سے معلوم ہوا کہ شرعی اعتکاف صرف اس صورت میں اعتکاف قرار پائے گا جب وہ مصطلح حقیقی مسجد میں ہو مجازی جائے نماز کو مطلقاً اس سے کوئی عمل دخل نہیں۔اس طرح تو چند مخصوص مقامات کے علاوہ روئے زمین کو بعض احادیث میں جائے نماز قرا دیا گیا ہے۔ ارشاد ہے: ( جُعِلَتْ لِیَ الْاَرْضُ مَسْجِدًا وَ طَہُوْرًا ) ”بایں وجہ تو کیا ساری زمین پر اعتکاف کا جواز ہے؟ ہر گز نہیں۔‘‘ اسی طرح محلِّ نزاع میں سمجھ لینا چاہیے کہ کتاب و سنت کی نصوص میں جس مسجد کا ذکر ہے وہ اصطلاحی مسجد ہے جس کے اپنے احکام و مسائل و آداب ہیں، جن کی صراحت کتب احادیث کی ورق گردانی سے مل سکتی ہے۔ وہاں جنبی آدمی اور حائضہ کو داخل ہونا ممنوع ہے۔ دوسری طرف عورت کی گھر میں نماز کی افضلیت پر قیاس کرتے ہوئے اس کے لیے گھر میں اعتکاف کا جواز پیدا کرنا بھی غیر معقول بات ہے تو کیا خیال ہے۔ مرد کی نفلی نماز بھی تو گھر میں افضل ہے جب کہ اعتکاف بھی غیر واجب ہے۔ پھر تو مردوں کے لیے بھی گھر میں اعتکاف بیٹھنے کا جواز ہونا چاہیے شاید کہ اس بناء پر فقیہ محمد بن عمر بن لبابہ مالکی اس بات کے قائل ہوگئے کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا وجود شرط نہیں۔ اس بارے میں یقینا آپ کا جواب بھی نفی میں ہو گا تو اس مذہب کو محض نقل کردینا آپ کے لیے فائدہ مندثابت نہ ہوا اور حنفیوں کے نزدیک چونکہ عورت کا طریقہ عبادت گھر کی چاردیواری تک محصور ہے اس بناء پر ان کا مذہب کہ عورت مسجد البیت(گھر کی مسجد) میں اعتکاف کرے معقول ہے۔ اس کے باوجود بعض فقہاء حنفیہ اس بات کے قائل ہیں کہ عورت کا اعتکاف مسجد میں بھی درست ہے۔ چنانچہ ’’منیۃ المفتی‘‘ میں ہے: ( لَوْ اِعْتَکَفَتْ فِی الْمَسْجِدِ جَازَ ) اور ’’البدائع‘‘ میں ہے: ( لَہَا اَنْ تَعْتَکِفَ فِی مَسْجِدِ الْجَمَاعَۃِ )