کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 253
دن کے بارہویں حصے کا نام ہے۔ غروب آفتاب پر روزہ افطار کرنے کا مطلب، دن کے آخری حصے میں روزہ کھولنا ہے۔ ’لیل‘ ’غسق‘ سے شروع ہوتی ہے۔ جب مشرق کی جانب سرخی جاتی رہے اور سیاہی ادھر سے پھیل کر سر کے اوپر سے گزر جائے تو روزہ افطار کرلو۔‘‘ مندرجہ بالا تحریر کا جائزہ لیجیے۔ (سائل: قاری عبدالرحمن صدیقی، لاہور) ( 21ستمبر 2007ء) جواب۔ مدعی کا دعویٰ بڑا عجیب سا ہے آج تک کسی کو اس بے تکے فلسفہ کی مو شگافی کی جرأت نہیں ہوسکی۔ ذوی العقول جانتے ہیں کہ سورج کے مغرب میں غروب ہوجانے کا نام غروبِ آفتاب ہے۔ قرآن میں ہے: ( وَجَدَہَا تَغْرُبُ فِیْ عَیْنٍ حَمِئَۃٍ) (الکھف:86) ”تو نے اسے پایا کہ ایک کیچڑ کی ندی میں ڈوب رہا تھا۔‘‘ قرآنی آیت (ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی اللَّیْلِ) کا مفہوم بھی یہی ہے۔ حافظ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ” قرآن کی آیت اس بات کی متقاضی ہے کہ غروبِ شمس پر روزہ افطار کرنا شرعی حکم ہے جس طرح صحیحین کی حدیث میں ہے: (إِذَا أَقْبَلَ اللَّیْلُ مِنْ ہَا ہُنَا، وَأَدْبَرَ النَّہَارُ مِنْ ہَا ہُنَا، وَغَرَبَتِ الشَّمْسُ فَقَدْ أَفْطَرَ الصَّائِمُ) [1] ”یعنی جب مشرق میں رات چھا جائے اور ادھر دن غروب ہوجائے تو روزے دار کی افطاری کا وقت ہوگیا۔‘‘ اور ’’حاکم‘‘ وغیرہ میں ہے: ( لَا تَزَالُ أُمَّتِی عَلَی سُنَّتِی مَا لَمْ تَنْتَظِرْ بِفِطْرِہَا النُّجُومَ) [2] ”میری امت ہمیشہ میری سنت پر قائم رہے گی جب تک اپنی افطاری میں ستاروں کے نکلنے کا انتظار نہ کرے۔‘‘ یہ نصوص اور دیگر روایات اس بات پر دال ہیں کہ روزہ جلدی افطار کرنا چاہیے اور یہ کہنا کہ ’’لیل‘‘ ’’غسق‘‘ سے شروع ہوتی ہے محض ادعاء ہے حالانکہ غسق مطلق رات کے اندھیرے کو کہا جاتا ہے۔ جس میں وقت کی تخصیص نہیں ہاں البتہ عمر رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں غسق کا ذکر ہے تاہم کثیر روایات کے مقابلہ میں یہ مرجوح ہے۔
[1] ۔ المجروحین،ج:2،ص:133