کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 244
”یعنی مستحب یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا اکٹھا روزہ رکھا جائے۔‘‘ چند سطور بعد رقم طراز ہیں: ( قَالَ بَعْضُ الْعُلَمَاء ِ وَلَعَلَّ السَّبَبَ فِی صَوْمِ التَّاسِعِ مَعَ الْعَاشِرِ أَنْ لَا یَتَشَبَّہَ بِالْیَہُودِ فِی إِفْرَادِ الْعَاشِرِ) یعنی ’’ بعض علماء نے کہا ممکن ہے دسویں کے ساتھ نویں کا روزہ رکھنے کاسبب یہ ہو کہ اکیلا دسویں کا روزہ رکھنے سے یہود سے مشابہت پیدا نہ ہو جائے۔‘‘ باقی نو اور گیارہویں میں سے ایک تاریخ کا تعین کرنا کسی روایت سے واضح نہیں جب کہ دسویں تاریخ کی اہمیت اپنی جگہ مسلمہ ہے اس کو کسی صورت ترک نہیں کیا جا سکتا۔ نیز دو روزے رکھنے کی تصریح پہلے ہوچکی اور جن احادیث میں اس کے لیے لفظ ترک استعمال ہوا ہے۔ اس سے مقصود صرف وجوب کا ترک ہے۔ استحباب کا نہیں۔ اور پھر دو روزے رکھنے کی تصریح ’’مسند احمد‘‘ کی سابقہ روایت کے علاوہ طحاوی اور بیہقی میں ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ماثور ہے: (صُومُوا التَّاسِعَ وَالْعَاشِرَ وَخَالِفُوا الْیَہُودَ) [1] یعنی’’ یہود کی مخالفت کرو۔ نویں اور دسویں کا روزہ رکھو۔‘‘ صاحب ’’المرعاۃ‘‘ فرماتے ہیں: اس سے’’صحیح مسلم‘‘میں وارد ابن عباس رضی اللہ عنھما کی روایت کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ اس جواب کی طرف بیہقی کا رجحان ہے۔(3/271) پھر علامہ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ سے نقل کرتے ہیں۔ صرف نویں کا روزہ رکھنے کا وہ قائل ہے جس کا فہم آثار کو سمجھنے اور الفاظِ حدیث اور اس کے طرق کا تتبع کرنے سے قاصر ہے۔ یہ بات لغت اور شرع کے اعتبار سے بعید ہے۔[2] پھر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے رقمطراز ہیں: ( وَ عِنْدِی مَرَاتِبُ صَوْم عَاشُوْرَائَ الثَّلَاث ہٰکَذَا أَدْنَاہَا أَن یَّصُوْمَ الْعَاشِرَ فَقَطْ، وَ فَوْقَہ أَن یَّصُوْمَ الحَادِی عَشَرَ مَعَہٗ وَفَوْقَہٗ أَن یَّصُومَ التَّاسِعَ وَالعَاشِرَ، وَإِنَّمََا جَعَلْتُ ہٰذِہِ فَوْقَ الْمَوْتَیْتَیْنِ الأَوْلَیَیْنِ لِکَثْرَۃِ الْاَاحَادِیْثِ فِیْہَا وَاللّٰہُ تَعَالٰی أَعْلَمُ) (3/273) مزید تفصیل کے لیے مرعاۃ المفاتیح کے مشارٌ الیہ مقام کو ملاحظہ فرمائیں۔
[1] ۔ فتح الباری، ج:4،ص:141 [2] ۔ المغنی،ج:3،ص:23