کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 234
درآں حالیکہ معاملہ اس طرح نہیں برائی صرف ایک ہی لکھی جاتی ہے۔ ہاں البتہ بعض اہلِ علم نے حرم مکی میں برائی کے ارتکاب کو اس سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ اسحاق بن منصور نے کہا میں نے امام احمد رحمۃ اللہ علیہ سے دریافت کیا۔ (ہَلْ وَرَدَ فِی شَیْئٍ مِنَ الْحَدِیثِ أَنَّ السَّیِّئَۃَ تُکْتَبُ بِأَکْثَرَ مِنْ وَاحِدَۃٍ قَالَ لَا مَا سَمِعْتُ إِلَّا بِمَکَّۃَ لِتَعْظِیمٍ) [1] ”کیا کسی حدیث میں وارد ہے کہ برائی بھی ایک سے زیادہ لکھی جاتی ہے۔ جواباً فرمایا: میں نے یہ بات کسی سے نہیں سنی۔ ہاں البتہ حرم کی تعظیم و احترام کی خاطر مکہ میں اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘ تا ہم جمہور زمان و مکان کے اعتبار سے تعمیم کے قائل ہیں۔ لیکن بعض دفعہ بڑھائی میں تفاوت پایا جاتا ہے۔اس پر یہ اعتراض وارد نہیں ہو سکتا کہ قرآن میں ازواج مطہرات کے بارے میں تو تضعیفِ عذاب کی نص موجود ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (مَنْ یَّاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفْ لَہَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ) (الاحزاب: 3) ”تم سے جو کوئی صریح نا شائستہ الفاظ کہہ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا دینے کی حرکت کرے گی اس کو دگنی سزا دی جائے گی۔‘‘ تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حق کی عظمت کی بناء پر ہے۔ کیونکہ ازواج مطہرات سے فحش گوئی وقوع ایک زائد سمت کا متقاضی ہے وہ ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کو اذیّت دینا۔[2] اس ساری بحث کا حاصل یہ ہے کہ برائی صرف ایک ہی برائی رہتی ہے اس میں اضافہ نہیں ہوتا۔ چاہے موسم رمضان ہو یا غیر، لیکن ایامِ مبارکہ میں اس کے وقوع سے اس کی شناعت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ اسی وجہ سے اس پر سختی سے نکیر کی گئی ہے (وَیَا بَاغِیَ الشَّرِّ أَقْصِرْ)[3] میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے۔ ( وَ قَالَ التِّرْمَذِیْ ھٰذَا حَدِیْثٌ غَرِیْبٌ)دوسری حدیث میں ہے: (مَنْ لَمْ یَدَعْ قَوْلَ الزُّورِ وَالعَمَلَ بِہِ، فَلَیْسَ للّٰهِ حَاجَۃٌ فِی أَنْ یَدَعَ طَعَامَہُ