کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 230
پورے کرلو۔ اس حدیث کا مفہوم یہ نہیں کہ سب کا دیکھنا ضروری ہے بلکہ اعرابی کے قصہ سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ بعض کا دیکھنا ہی کافی ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے ، مقامی لوگوں کی رؤیت ضروری نہیں بلکہ بیرونی اندرونِ ملک رؤیت بھی کافی ہو سکتی ہے غالباً اس بنا ء پر ابن عباس رضی اللہ عنھما نے معاویہ کی شامی رؤیت کو نا قابلِ اعتبار سمجھا ہے جب کہ مطلع کے حساب سے مدینہ اور دمشق کا بہت کم فرق ہے ، امام شوکانی نے ’’نیل الاوطار‘‘ میں اس بات کو ترجیح دی ہے۔ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرنا ممکن ہے کہ اندرونِ ملک شہادتوں پر اعتماد کرکے روزہ رکھنا شکی روزہ نہ ہو گا۔ رہا سرحدوں کا معاملہ تو بسبب قرب کے وہ ایک ہی شمار ہو گا۔ جب کہ مقام دوسرے مقام سے اتنے بعد میں واقع ہو کہ رؤیت ہلال میں فرق پڑ سکتا ہو، ایسی صورت میں ایک جگہ کی رؤیت دوسری جگہ قابل اعتبار نہ ہو گی۔ دراصل اس امر کی بنیاد مدارِ شمس و قمر پر ہے۔ اسی بناء پر بعض ایک دوسرے سے دُور دو شہروں میں مطلع کا فرق کم ہوتا ہے اور قریبی میں زیادہ اہل علم نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ اہل مشرق کی رؤیت اہل مغرب کے لیے معتبر ہے جب کہ اس کا معکوس ، ناقابلِ اعتبار ہے۔ بطورِ مثال دو بھائیوں میں سے ایک مشرق میں ہے،د وسرا مغرب میں۔ دونوں زوال کے وقت فوت ہوتے ہیں۔ اندریں صورت مغربی، مشرقی کا وارث ہوگا اس لیے کہ اس کے علاقہ کا زوال بعد میں ہوا ہے۔ اسی طرح یہ بھی بدیہی امر ہے کہ مکہ اور مدینہ اور یہاں کے اعتبار سے نمازوں کے اوقات ، ایام حج، عید الفطر اور عید الاضحی کا تفاوت اسی فرق پر مبنی ہے۔ میری ناقص رائے میں مطلع کے فرق میں اگر قریب دو نمازوں مثلاً ظہر، عصر، اور مغرب کے اوقات کا لحاظ کرکے مطلع کا فرق کر لیا جائے تو اُمی امت کے لیے انسب اور قرینِ قیاس معلوم ہوتا ہے کیونکہ نمازوں کے وقتوں کی بناء اختلافِ مطالع پر ہے۔ دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگ جہاں ریڈیو بھی نہ ہو ،کیا کریں؟ سوال۔ ہمارے علاقے میں بعض ایسے مقامات ہیں جو دور دراز ہیں۔ ریڈیو بھی نہیں۔ یعنی ایسے ہی حالات ہیں، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے۔ اب وہ لوگ کیا کریں؟ جواب۔ دوردراز علاقوں میں آباد لوگ اپنے ذرائع اور وسائل کے مطابق عمل کریں۔ قرآن میں ہے: {فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ} (التغابن : 16) ’’سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو۔‘‘ ریڈیو خبر کی حد اور عدمِ ذرائع کی صورت میں کیا حکم ہے؟ سوال۔ ریڈیو پر دی گئی چاند کی اطلاع کتنے فاصلے تک قابلِ عمل ہے۔ مہربانی فرما کر ہمارے اس مسئلہ کا حل فرمائیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو ثابت ہو اس سے آگاہ فرمائیں۔ براہِ کرم عید سے پہلے پہلے ہمیں جواب روانہ فرمادیں تاکہ عید کے چاند کا صحیح طور پر فیصلہ ہو سکے۔ جزاک اللہ تعالیٰ، والسلام (سائل)(13جنوری 1995ء)
[1] ۔ صحیح البخاری،بَابُ إِذَا اصْطَلَحُوا عَلَی صُلْحِ جَوْرٍ فَالصُّلْحُ مَرْدُودٌ،رقم:2697