کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 228
جواب۔ قرآن مجید کو پڑھوا کر ایصالِ ثواب کا طریقہ کار کتاب و سنت اور سلف صالحین کے عمل سے ثابت نہیں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے: (مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ ) [1] ”یعنی جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘ فقہاء شافعیہ اور حنفیہ نے بھی عمل ہذا کو مکروہ و بدعت لکھا ہے۔ مولانا عبدالحق حنفی دہلوی فرماتے ہیں : ” وعادت نبود کہ برائے میت شوند قرآن خوانند و ختمات خوانند نہ برسر گور نہ غیراں ایں مجموعہ بدعت است۔‘‘ (سلف کی) یہ عادت نہ تھی کہ وہ میت کے لیے قرآنی اور دیگر ختموں کا اہتمام کریں، نہ قبر پر نہ کسی اور جگہ۔ یہ تمام چیزیں بدعت ہیں۔(مدارج النبوۃ) اور الشیخ علی المتقی حنفی صاحب’’کنزالعمال‘‘ نے کہا ہے: ( اَلاِجْتِمَاعُ لِلْقِرَائَ ۃِ بِالْقُرْاٰنِ عَلَی الْمَیِّتِ بِالتَّخْصِیْصِ فِی الْمَقْبَرَۃِ اَوِ الْمَسْجِدِ اَوِ الْبَیْتِ بِدْعَۃٌ مَذْمُوْمَۃٌ ) ”یعنی میت پر قرآن خوانی کے لیے بالخصوص قبرستان مسجد یا گھر میں اجتماع قابلِ مذمت بدعت ہے۔‘‘ المجدد نے ’’سفر السعادۃ ‘‘ میں کہا ہے: ( وَ لَمْ تَکُن الْعَادَۃُ اَن یَّجْتَمِعُوا لِلْمَیِّتِ وَ یَقْرؤا لَہُ الْقُرْاٰن ۔ وَ یَخْتَمُوْہُ عِنْدَ قَبْرِہٖ وَ لَا فِیْ مَکَانٍ اٰخَرٍ وَ ھٰذَا الْمَجْمُوْعُ بِدْعَۃٌ مَکْرُوْہَۃٌ) ”یعنی سلف کی عادت نہیں تھی کہ جمع ہو کر میت کے لیے قرآن خوانی کرکے قرآن ختم کرتے ہوں، نہ قبر کے پاس اور نہ کسی دوسری جگہ بلکہ یہ اجتماع مکروہ بدعت ہے۔‘‘