کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 218
(کُنَّا نَعُدُّ الِاجْتِمَاعَ إِلَی أَہْلِ الْمَیِّتِ وَصَنِیعَۃَ الطَّعَامِ بَعْدَ دَفْنِہِ مِنَ النِّیَاحَۃِ )[1] علامہ شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حدیث جریر: (ا َخْرَجَہُ اَیْضًا ابْنُ مَاجَہ وَ اِسْنَادُہُ صَحِیْحٌ )[2] بسلسلہ ٔ دعاء مولانا محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ رقمطراز ہیں: (موت کے بعد میت کے لیے دعا اور صدقہ یقینا مفید ہیں۔ جنازہ خود میت کے لیے دعاء ہے لیکن صدقہ اور دعا کے لیے کسی وقت کا تعین شرعاً ثابت نہیں۔ موت کے بعد میت کے گھر بیٹھ کر عموماً دعاؤں کا تانتا بندھ جاتا ہے۔ ہر آنے والا دعا کے لیے اس انداز سے درخواست کرتا ہے گویا وہ اپنی حاضری نوٹ کرا رہا ہے۔ ایک سیکنڈمیں دعا ختم ہو جاتی ہے۔ اور حقہ اور گپوں کا دَور شروع ہو جاتا ہے۔ اور دعا کے وقت بھی دل حاضر نہیں ہوتا۔ حالانکہ دل کی توجہ دعاء کے لیے از بس ضروری ہے۔ ( أَنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَجِیبُ دُعَاء ً مِنْ قَلْبٍ غَافِلٍ لَاہ ٍ)[3] ”اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں کرتا۔‘‘ میت کے لیے دعاء ہر وقت بلا تخصیص کی جا سکتی ہے۔ اور زندوں کی طرف سے یہی بہترین صلہ ہے جو میت کو دیا جاتا ہے۔ بشرطیکہ سنت کے مطابق ہو۔ تعزیت کا مطلب گھر والوں کی تسکین ہے۔ دعا اگر مجلس کی بجائے انفراداً کی جائے تو دعا کا مقصود پورا ہو سکتا ہے۔ غرض یہ تین دن کا جلسۂ دعائیہ سنت سے ثابت نہیں۔ ان مجالس میں حقہ اور بھی ان کے مقصد کو برباد کردیتا ہے۔(الاعتصام گوجرانوالہ ، 28دسمبر1951ء) مردے کے لیے باوضو دعا کرنا کیابدعت ہے؟ سوال۔ہمارے ہاں ایک مولوی صاحب کی والدہ وفات پاگئیں۔ وہ مسجد میں نماز ادا کرنے آئے۔ نماز کے بعد چند نمازیوں نے مولوی صاحب سے پوچھ کر مغفرت کی دعا کی۔ بعض لوگوں نے اعتراض کیا کہ یہ بدعت ہے۔ جواب دیں کہ ایسا کرنا منع ہے۔ مردے کے لیے باوضوء چند حضرات دعا کریں تو کیا گناہ ہے؟ (محمد یحییٰ عزیز کوٹ رادھا کشن قصور) (6 دسمبر1996ء) جواب۔ میت کے لیے باوضوء دعا کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عمل سے ثابت ہے۔[4]
[1] ۔ زاد المعاد،الجزء الاوّل، ص:146