کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 213
ایسی بدبودار مجلس میں رحمت کے فرشتوں کی آمد ممکن ہے۔ جواب یقینا نفی میں ہے۔ پھر اصل اختلاف موجود مجلس کی ہیئت ترکیبی پر ہے۔ کیا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اپنے کسی عزیز کی وفات پر تین دن کا جلسہ دعائیہ جما کر بیٹھا کرتے تھے۔ جب کہ بعض روایات میں اس کو نوحہ قرار دیا گیا ہے۔ جہاں تک میت کے لیے دعائے مغفرت کا تعلق ہے۔ سو یہ غیر متنازع امر ہے۔ سبھی اس بات کے قائل ہیں کہ دعاء ہونی چاہیے جس طرح کہ کئی ایک احادیث اور قرآنی آیت (رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِِیْمَانِ) (الحشر:10) میں مصرّح ہے اور تعزیت بھی مسنون ہے جس کے لیے جگہ اور وقت کی کوئی حد بندی نہیں۔ لیکن محل نظر صرف مروّجہ طریقہ ہے جو درست نہیں۔ تعزیت کے آداب و دعاء بتائیں سوال۔تعزیت کے آداب و دعاء بتائیں۔(عبدالغنی عاصم۔ لسبیلا) (5 مئی 2000ء) جواب۔ تعزیت کرنا سنت ہے کیونکہ اس سے پریشان حال کی دلجوئی ہوتی ہے۔ اور اس کے لیے بھلائی کی دعاء بھی ہونی چاہیے۔ اس میں کوئی فرق نہیں مرنے والا چھوٹا ہو یا بڑا اور نہ تعزیت کے لیے کوئی مخصوص الفاظ ہیں۔ بلکہ مناسب آسان جو بھی الفاظ ہوں، ان سے تعزیت ہو سکتی ہے اور نہ اس کے لیے کوئی وقت یا دن مقرر ہے۔ تعزیت کے لیے مخصوص ہیئت میں مخصوص دن بیٹھے رہنا سنت سے ثابت نہیں۔اس سے اجتناب ضروری ہے۔ صحیح حدیث میں ہے: ’’ جو دین میں اضافہ کرے وہ مردود ہے۔‘‘ کسی کی وفات پر پھول پیش کرنا کیسا ہے ؟تعزیت اور اظہارِ افسوس کے لیے کیا جائے ؟ سوال۔میرے خاوند کے ساتھ ترکی کا ایک عالم آدمی کام کرتا ہے۔ آج صبح وہ کام پر نہ آیا، اور اس نے ہمیں اطلاع دی کہ اس کا بڑا بیٹا فوت ہو گیا ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ اس کا بیٹا وفات پا گیا ہے۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسے کچھ پھول وغیرہ بھیجیں۔ لیکن ہمیں معلوم نہیں کہ اس حالت میں ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ کیونکہ اسلام کے بارے میں ہماری معلومات محدود ہیں۔ اس موقع پر اس سے اور اس کے گھرو الوں سے تعزیت اور اظہارِ افسوس کے لیے ہمیں کیا کرنا چاہیے؟ (مغربی مسلمانوں کے روزمرہ مسائل) جواب۔سب سے پہلے تو میں آپ کے نیک جذبات پر آپ کی تحسین کرنا چاہتا ہوں۔ آپ اس سے فون پر رابطہ کر سکتے ہیں اور اسے اچھے الفاظ کے ساتھ تسلی تشفی دیتے ہوئے صبر کی تلقین کر سکتے ہیں۔ اور اس کے بیٹے کے لیے بخشش اور جنت کی دعا کر سکتے ہیں۔ علاوہ ازیں ان کی دلجوئی کے لیے کچھ رقم بھیجنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر وہ کسی قریبی مقام پر رہتے ہیں تو اس کے لیے اوراس کے گھر والوں کے لیے کھانا بھیج سکتے ہیں، کیونکہ مرحوم کے گھر والے جنازہ وغیرہ میں مشغول
[1] ۔ صحیح مسلم، کتاب الحج، باب استحباب تقبیل الحجر الاسود فی الطواف:3067