کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 197
عنایت فرمائے۔ اورہمیں شکر گزاری کی توفیق بخشے! احسان فراموش ہونا اپنے کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ ملحدین کو قائل کرنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ حسب استطاعت پہلے اپنے کو ضروری علم سے مسلح کریں پھر علی وجہ البصیرت ان کو اللہ کے دین کی طرف دعوت دیں۔ توامید ہے کہ دعوت نتیجہ خیز ثابت ہو گی اور اشکالات کی صورت میں پختہ کار اہل علم کی طرف رجوع کریں۔ اور ایک عام آدمی کے لیے بھی یہ ہے کہ اپنی زبان میں موضوع سے متعلق صحیح العقیدہ علماء کی کتابوں کو پڑھ کر کما حقہ واقفیت حاصل کرکے ٹھوس دلائل کی روشنی میں عقل و نقل سے ان کو قائل کرنے کی سعی کرے۔ (وَالتَّوْفِیْقُ بِیَدِ اللّٰہِ) (قبرستان کے متعلقہ مسائل) جوتوں سمیت قبرستان میں جانا سوال۔کیا جوتے قبرستان کے باہر اتارنے چاہئیں؟ جواب۔ راجح مسلک یہ ہے کہ قبروں میں جوتے مطلقاً اتار دئیے جائیں۔ ہاں البتہ چلنے میں کانٹوں وغیرہ سے بچاؤ کی خاطر پہنا جاسکتا ہے۔ ملاحظہ ہو! ’’تہذیب السنن‘‘ ابن قیم اور ’’فتاویٰ لجنۃ دائمہ‘‘ (9/ 123) ”النہایہ‘‘ میں ہے: (اِنَّمَا اَمرُہُ بِالخَلعِ اِحتَرَامًا لِلمَقَابِرِ، لِاَنَّہٗ کَانَ یَمشِی بَینَہَا)تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو! (احکام الجنائز مولانا محمد عبدہ رحمۃ اللہ علیہ ) قبرستان کی جگہ میں کھیتی باڑی یا مکان کی تعمیر کا حکم: سوال۔ قبرستان مسمار کرکے اس میں کھیتی باڑی کرنا ،فروٹ کے درخت لگانا یا مکان بنانا کیسا ہے؟ اس کھیت کی آمدن اور مکان میں قرآن پڑھنے یا نماز پڑھنے کا کیا حکم ہے؟(محمود الحسن سلیم، سکردو، بلتستان) (11جون 1999ء) جواب۔ اہل اسلام کے قبرستان کو مسمار کرکے اس کی جگہ کھیتی باڑی یا فروٹ کے درخت لگانا یا مکان تعمیر کرنا ناجائز ہے۔ کیونکہ اس میں مسلمانوں کی توہین اور اکرامِ مسلم کے منافی فعل ہے۔ ہاں البتہ مشرکین کی قبروں کو اکھاڑا جا سکتا ہے۔ چنانچہ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی’’صحیح‘‘ میں بایں الفاظ باب منعقد کیا ہے: (بَابٌ: ہَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِکِی الجَاہِلِیَّۃِ، وَیُتَّخَذُ مَکَانُہَا مَسَاجِدَ) ”جس سے مقصود یہ ہے کہ مشرکوں کی قبریں مسمارکرکے وہاں مسجد تعمیر کرنا جائز ہے۔‘‘ پھر اس واقعہ سے استدلال کیا ہے جس میں ہے کہ مسجد نبوی کو مشرکوں کی قبور کی جگہ بنایا گیا تھا۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ