کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 188
ہوجاتا، فرشتہ پھر اس کے سر پر پتھر مار کر سر کچل دیتا۔ (ھ) سود خور نہر سے نکلنے کی کوشش کرتا تو اس کے منہ پر پتھر مارا جاتا۔ فرشتہ پتھر پکڑنے جاتا ہے تو منہ پھر صحیح سلامت ہوجاتا ہے۔ ان تمام واقعات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ مرنے کے بعد ایک نیا جسم دیا جاتا ہے جو تباہ ہونے کے بعد پھر پہلے جیسا بھلا چنگا ہوجاتا ہے۔ پھر انھیں عذاب دیا جاتا ہے، بدن تباہ ہوجاتا ہے لیکن وہ بدن پھر صحیح ہوجاتا ہے اسی طرح یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ لیکن دنیاوی بدن میں یہ خاصیت نہیں کہ تباہ ہونے کے بعد صحیح سلامت اور پہلے کی طرح بھلا چنگا ہوجائے۔ (د) دنیا میں زانی اور زانیات مختلف علاقے، شہروں اور ملکوں میں دفن کیے جاتے ہیں۔ لیکن اس حدیث میں ذکر ہے کہ ان سب کو ایک تنور میں جمع کرکے آگ بھڑکا دی جاتی ہے۔ ثابت ہوا کہ یہ عذاب قبر میں نہیں بلکہ کسی اور جگہ دیا جاتا ہے۔ ان گمراہ لوگوں کے خود ساختہ عقائد ونظریات اور خود ساختہ دین کا تار وپود بکھیرنے کے لیے ہمیں مندرجہ سوالوں کے جوابات دیجیے۔ جزاک اللہ خیراً (والسلام: حافظ عبدالصمد، مین بازار سراج پارک، شاہدرہ)(8 فروری 2008) جواب۔ سوال میں مذکور/ مشارٌ الیہ حدیث الرؤیا (صحیح البخاری،کتاب الجنائز )میں مختصراً ذکر ہوئی ہے جب کہ تفصیلاً’’صحیح بخاری‘‘کی کتاب الرؤیا کے اخیر میں (باَبُ تَعْبِیرِ الرُّؤْیَا بَعْدَ صَلاَۃِ الصُّبْحِ)کے تحت بیان ہوئی ہے۔ اس میں کوئی قاعدہ کلیہ کی وضاحت نہیں کہ ہر مرنے والے کے ساتھ یہی سلوک ہوتا ہے یہ تو محض مجلس کی مناسبت سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خواب کی توجیہ فرمائی ہے تاکہ ہمارے لیے سامانِ عبرت ہو اور آخرت کی ہولناکیوں سے بچ سکیں۔ نصوص شرع سے یہ بات عیاں ہے کہ ماوراء العقل برزخی اور غیبی امور میں توقف کرنا اور بلا اجتہاد ان پر ایمان لانا ہی سلامتی کی راہ ہے۔ اپنی طرف سے لب کشائی کرنا ضلالت وگمراہی کا دروازہ کھولنا ہے جو خطرناک کھیل ہے۔ معتزلہ ودیگر گمراہ فرقوں کی گمراہی کا سبب یہی تھا کہ وہ اپنی عقل کو حَکم بنا کر اس کی پیروی میں لگے رہے۔ اس بنا پر انھوں نے معجزات وکرامات اور عذابِ قبر وغیرہ ماوراء الحس اشیاء سے متعلق نصوص قاطعہ کا انکار کردیا۔ حالاں کہ چاہیے یہ تھا کہ عقل کے ساتھ نبوت کی روشنی حاصل کرتے اس کے بغیر عقل کا صراطِ مستقیم پر قائم رہنا قطعاً ممکن نہیں ہے۔ کیوں کہ عقل بذاتہ ناقص ہے اشیاء کی حقیقت اور کنہ کے ادراک سے قاصر ہے۔ مثلاً گنا میٹھا کیوں ہے؟ اور اندرائن کڑوی کیوں ہے؟ جب کہ اُگنے کی زمین اور پانی ایک جیسا ہے تو یہ فرق کیوں ہے؟ اس کا جواب عقل کی بجائے وحی کے ذریعہ ملے گا کہ خالق ومالک نے قدرتِ تامہ کے اظہار کے لیے اور حکمت کاملہ کی بنا پر مختلف رنگ اور ذائقے پیدا کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں مختلف تاثیر پیدا فرمادی ہے۔ اسی طرح برزخی امور جو کتاب وسنت میں ثابت ہیں ان پر بھی یقین رکھنا جزوِ ایمان ہے۔ دنیا میں آدمی جس بدن، ہاتھ، پاؤں وغیرہ کے ساتھ
[1] ۔ صحیح مسلم،بَابُ تَفْضِیلِ نَبِیِّنَا صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ عَلَی جَمِیعِ الْخَلَائِقِ،رقم: 2278 [2] ۔ صحیح ابن حبان،ذِکْرُ الْإِخْبَارُ بِأَنَّ الْمُسْلِمَ فِی قَبْرِہِ عِنْدَ السُّؤَالِ یُمَثَّلُ لَہُ النَّہَارُ عِنْدَ مُغَیْرِبَانِ الشَّمْسِ، رقم:3116