کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 184
سے گناہ معاف ہوتے تو کیا ان کو گناہ کی معافی کی ضرورت نہ تھی۔ ؟ یا وہ میت سے خیرخواہ نہ تھے؟ یا ان کو نیک کاموں کا شوق نہ تھا؟ جب یہ سب باتیں تھیں بلکہ ہم سے بڑھ کر وہ ایسی باتوں کا خیال رکھتے تھے ، تو پھر کیا وجہ ہے خیر القرون میں اس کا ثبوت نہیں ملتا؟ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے اسقاط سے میت کے گناہ معاف نہیں ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: (مَنْ کَذَبَ عَلَیَّ مُتَعَمِّدًا، فَلْیَتَبَوَّأْ مَقْعَدَہُ مِنَ النَّارِ) [1] ”یعنی ، جو مجھ پر جھوٹ بولے وہ اپنا ٹھکانہ آگ میں بنائے۔‘‘ 2۔ جس کام کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ضرورت ہو اور اس کے کرنے سے کوئی شئے مانع بھی نہ ہو پھر اس کو کوئی نہ کرے تو وہ قطعی بدعت ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ( مَنْ اَحْدَثَ فِیْ اَمْرِنَا ھٰذَا مَا لَیْسَ مِنْہُ فَہُوَ رَدٌّ ) [2] یعنی ہمارے دین میں جو نئی بات نکالے وہ مردود ہے۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ ایسا شخص لعنتی ہے، بلکہ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر نیا کام دین میں مردود ہے۔ خواہ اس کی ضرورت ہو یا نہ ہو۔ پس اسقاط کرنے والوں کو چاہیے کہ یا تو خیر القرون سے اس کا ثبوت دیں یا اللہ سے ڈریں اورایسے کاموں سے باز آجائیں۔ جو بجائے ثواب کے اللہ کی ناراضگی کا باعث ہیں۔(ماخوذ از رسالہ ردِّ بدعات لشیخنا محدث روپڑی رحمۃ اللہ علیہ ) ایسی مجالس میں شرکت سے ہر صورت احتراز کرنا چاہیے۔ قرآن میں ہے: (وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِہَا وَ یُسْتَھْزَاُ بِہَافَلَا تَقْعُدُوْا مَعَہُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُہُمْ ) (النساء:140) ”اور اللہ نے تم مومنوں پر اپنی کتاب میں(یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم(کہیں) سنو کہ اللہ کی آیتوں سے انکار ہو رہا ہے اور ان کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ اور باتیں(نہ) کرنے لگیں ان کے پاس مت بیٹھو ورنہ تم بھی انہی جیسے ہو جاؤ گے۔‘‘ میت پر رونے پیٹنے اور بال نوچنے کی شرعی حیثیت سوال۔ میت پر رونے، پیٹنے اور بال نوچنے کے متعلق قرآنِ مجید اور احادیث ِ مبارکہ سے وضاحت کریں۔ (ایک سائل) (31مارچ 2000)
[1] ۔ صحیح البخاری ،بَابٌ: ہَلْ تُنْبَشُ قُبُورُ مُشْرِکِی الجَاہِلِیَّۃِ، وَیُتَّخَذُ مَکَانُہَا مَسَاجِدَ،رقم:428