کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 181
ادا کردیا ہے۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائیں تاکہ امن و امان بھی برقرار رہے اور مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ امید ہے کہ آپ فتویٰ جاری فرماتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کو مد نظر رکھیں گے۔ 1۔ عیسائی عورت کو زبردستی دفن نہیں کیا گیا بلکہ اس میں مسلمانوں کی مرضی شامل تھی۔ 2۔ عیسائی عورت قبرستان کے ایک کونے میں دفن ہے اور اس کو آسانی سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ 3۔ قبر کو اکھاڑنا ایک پیچیدہ مسئلہ ہے۔ 4۔ لاش نکال کر کسی اور جگہ دفن کرنے کا فی الحال کوئی خاص انتظام نہیں ہے کیونکہ کوئی مسلمان جگہ دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔ 5۔ کچھ لوگوں کی رائے ہے کہ اسلام محبت و رواداری اور صلح و امن کا حکم دیتا ہے، اس لیے قبر کو نہ اکھاڑا جائے کیونکہ یہ دورِ جاہلیت کی نشانی ہے اورعیسائیوں سے اظہارِ ہمدردی کیا جائے کیونکہ وہ اہل کتاب ہیں۔ (سائل : ڈاکٹر جاوید اقبال۔ نورپور، تھانہ ہڈیارہ تحصیل کینٹ، ضلع لاہور،) (10 جنوری 2003) جواب۔ مسلمانوں کے قبرستان میں مشرکین اور کفار کو دفن کرنا ناجائز اور حرام ہے۔ کیونکہ اس میں اہل اسلام کے مردوں کی بے حرمتی ہے۔ جو شخص ایسے فعل کا مرتکب ہوا ہے اس نے کبیرہ گناہ کیا ہے ،اس کے لیے توبہ کرنا لازمی ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان اہل قبور کی زیارت کا (یعنی قبروں کی زیارت اور قبرستان جانے کا) حکم دیا ہے اور ان کے پاس کھڑے ہو کر دعا کرنے کی تاکید فرمائی ہے۔ جب کہ مشرک کی قبر کے پاس کھڑا ہونا ممنوع ہے بلکہ اس کے برعکس وہاں سے جلدی گزر جانے کا حکم دیا ہے ۔ جس طرح کے قصہ دیارِ ثمود کی وضاحت موجود ہے۔ چنانچہ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے: (وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍمِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ) (التوبۃ: 84) ”اور (اے نبی) ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی اس ( کے جنازے) پر نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر (جا کر ) کھڑے ہونا۔‘‘ ”جامع الترمذی‘‘ میں حدیث ہے کہ اس آیت کے نازل ہونے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی منافق میت کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھائی اور نہ اس کی قبر پر کھڑے ہو ئے۔ عہد نبوی سے لے کر اسلامی دستور اور عمل یہی رہا ہے کہ مسلمانوں کا قبرستان کفار سے ہمیشہ جدا رہا ہے۔ چنانچہ ’’صحیح بخاری‘‘ میں قصہ عمر رضی اللہ عنہ میں ہے: (وَإِلَّا فَرُدُّونِی إِلَی مَقَابِرِ المُسْلِمِینَ)[1]
[1] ۔ سبل السلام: 3/331 [2] ۔ سنن أبی داؤد،بَابُ صَنْعَۃِ الطَّعَامِ لِأَہْلِ الْمَیِّتِ، رقم:3132 امام ترمذی (998) نے فرمایا حسن صحیحٌ۔ ابن ماجہ،رقم1610