کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 177
”حدیث کا ظاہر اس بات کا متقاضی ہے کہ گھروں میں دفن کرنا منع ہے۔‘‘
میت کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کے واسطے بطورِ امانت دفن کرنا
سوال۔ میت کو ایک شہر سے دوسرے شہر منتقل کرنے کے واسطے امانت کے طور پر دفن کردینا، اس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کونسی مجبوریوں کے تحت ایسا کیا جا سکتا ہے ؟اور اس امانت کا زیادہ سے زیادہ وقت کتنا ہو سکتا ہے؟
(رانا محمد اقبال ۔ ساہیوال) (27جون 1997)
جواب۔ اصل یہ ہے کہ جہاں کوئی فوت ہو وہیں دفن کردیا جائے ۔ ترمذی میں حدیث ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنے بھائی عبدالرحمن کی بعد از وفات نقل مکانی پر فرمایا تھا:
( وَاللّٰهِ لَوْ حَضَرْتُکَ مَا دُفِنْتَ إِلاَّ حَیْثُ مُتَّ) [1]
ہاں البتہ جگہ کی فضیلت کی بناء پر بعض اہل علم جواز نقل کے قائل ہیں۔[2]
جب کہ دوسری طرف مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کے جَامِعُ الْقَضَاء ِ وَکَرَاہِیَتُہُ میں ہے۔
ابوالدرداء رضی اللہ عنہ نے حضرت سلمان کو لکھا سرزمین پاک شام میں تشریف لے آئیے۔ جواباً انھوں نے کہا: ’’زمین کسی کو پاک اور مقدس نہیں بناتی۔ اصل میں انسان کے اعمال ہی اس کو پاک بناتے ہیں۔ ‘‘
پھر بطورِ امانت کسی کو دفن کرنے کا شریعت میں کوئی تصور نہیں۔ لہٰذا تعیین ایام کا سوال بے محل ہے۔
ولادت کے بعد فوت شدہ جڑواں بچوں کا جنازہ اور دفن کاطریقہ:
سوال۔ولادت کے بعد فوت شدہ جڑواں بچوں کا جنازہ اور دفن کاطریقہ کیا ہے؟ (سائل) (3 اپریل1998ء)
جواب۔ اصل یہی ہے۔ فرمایا :
(ثُمَّ اَمَاتَہٗ فَاَقْبَرَہٗ) (عبس:21) ’’پھر اس کو موت دی پھر قبر میں دفن کرایا۔‘‘
جڑواں بچے اکٹھے ہوں تو کیا ان کی تدفین کے لیے ایک ہی قبر بنا ئی جائے؟
سوال۔ دو بچے اکھٹے پیدا ہوئے ہیں اور اکٹھے ہی فوت ہو گئے ہیں کیا دونوں کو الگ الگ دفن کریں یا ایک ہی قبر میں دفن کیا جائے؟ (ابو حنظلہ محمد محمود علوی) (13 جون 1997)
جواب۔ اصلاً چونکہ ہر انسان کے لیے قبر جدا گانہ ہے۔ لہٰذا ان دونوں بچوں کو علیحدہ دفن کیا جائے۔ قرآن میں ہے:
[1] ۔ مفتی صاحب کا اشارہ غالباً اس طریقے کی طرف ہے جو ہمارے ہاں رائج ہو گیا ہے کہ ہر شخص مجلس میں آتے ہی سب سے دعا کرنے کا تقاضا کرتا ہے کہ ’’دعا کرو جی‘‘ پھر سب لوگ گپیں ہانکتے ہانکتے اور بعض سگریٹ کے کش لگاتے لگاتے ہاتھ اٹھا کر دعا شروع کردیتے ہیں۔ یہ طریقہ بذاتِ خود دعا کی توہین اور اُس کے آداب کی خلاف ورزی ہے۔ ورنہ کتاب و سنت کے مطابق تمام آداب اور تقاضوں کا لحاظ رکھتے ہوئے دعا کرنے کا انکار کیسے کیا جاسکتا ہے۔(حافظ عبدالوحید)
[2] ۔صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ أوطاس،رقم: 4323، 6383۔