کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 161
اصل مسئلہ پر بھی روشنی ڈالیں۔ نوری صاحب موصوف کاجواب درج ذیل ہے۔ (محمد اسلم راناایڈیٹر ماہنامہ’’المذاہب‘‘ لاہور) (15دسمبر2000) مکرم و محترم جناب پروفیسر محمد اسلم رانا صاحب۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ… مزاجِ گرامی! مکتوب گرامی باصرہ افروز ہوا، یاد فرمائی کا شکریہ… گزشتہ کئی روز مسلسل سفر میں رہا، جواب میں تاخیر پر معذرت خواہ ہوں… ”دعا بعد نمازِ جنازہ‘‘ کے حوالے سے آپ نے اپنے تاثرات کا اظہار فرمایا، جواباً عرض ہے کہ حضرت فقیہ اعظیم عَلَیہِ الرَّحْمَۃ نے دعا کی اہمیت پر احادیث نقل کیں… جب دعا کی اس قدر تاکید ہے تو نمازِ جنازہ کے بعد بھی کی جانی چاہیے۔ جب کہ کسی حدیث میں اس سے منع نہیں کیا گیا۔ جب دعا مطلقاً جائز ہے تو جنازہ کے بعد ناجائز کیوں؟ حدیث مبارک (اِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْمَیِّتِ فَاَخْلِصُوا لَہُ الدُّعَائ)[1] کا ترجمہ’’جب میت پر نماز پڑھ چکو تو اخلاص کے ساتھ اس کے لیے دعا کرو۔‘‘ ازروئے قواعد درست ہے، کیونکہ ’’ فاء تعقیب‘‘ کا یہی مفاد ہے۔ آپ نے شاید توجہ نہیں فرمائی۔ مضمون میں خاص دعا بعد نمازِ جنازہ کے حوالے سے کئی احادیث ہیں۔ مثلاً یہ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے جنازہ پڑھایا پھر بعد از فراغت دعا فرمائی۔ یہ حدیث ’’ابن ابی شیبہ‘‘ میں ہے۔ یہ جان کر اطمینان ہوا کہ ماہنامہ نور الحبیب باقاعدہ آپ کو مل رہا ہے۔ (والسلام) (صاحبزادہ ) محمد محب اللہ نوری مہتمم دارالعلوم حنفیہ فریدیہ بصیرپور شریف۔(اوکاڑہ) جواب۔ فتویٰ میں مذکور حدیث کی تشریح بقول علامہ مناوی رحمۃ اللہ علیہ یوں ہے کہ ”میت کے لیے اخلاص کے ساتھ دعا کرو کیوں کہ اس نمازِ (جنازہ) سے مقصود میت کے لیے صرف سفارش کرنا ہے جب دعا میں اخلاص اور عاجزی ہوگی تو اس کے قبول ہونے کی امید ہے۔[2] ”مستدرک حاکم‘‘ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے: ( وَیُخْلِصُ الصَّلَاۃَ فِی التَّکْبِیرَاتِ الثَّلَاثِ )[3] ”یعنی جنازہ کی تین تکبیروں کے دوران اخلاص سے دعا کرے۔‘‘ حدیث ہذا میں اس امر کی وضاحت ہو گئی کہ دعا کا تعلق صرف حالتِ نماز کے ساتھ ہے۔اصولی قاعدہ معروف ہے
[1] ۔ مسند احمد ،رقم: 11237، 3/29، 76۔ صحیح الجامع : 1650۔