کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 135
( أَنَّ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: نَہَی أَنْ یُصَلَّی عَلَی الْجَنَائِزِ بَیْنَ الْقُبُورِ) [1] ” نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قبروں کے درمیان جنازہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔‘‘ دوسری روایت میں ہے: قبرستان اور حمام کے علاوہ تمام زمین مسجد ہے ۔‘‘ اورتیسری روایت میں ہے: (اجْعَلُوا فِی بُیُوتِکُمْ مِنْ صَلاَتِکُمْ وَلاَ تَتَّخِذُوہَا قُبُورًا) [2] قبر یا اس کے قریب نمازِ جنازہ پڑھنا سوال۔حضرت حافظ صاحب! السلام علیکم ورحمۃ اللہ ۔ جنازہ پڑھاتے وقت صف لمبی ہونے کی صورت میں سامنے آٹھ دس فٹ دور اگر قبریں ہوں تو کیا نمازِ جنازہ پڑھی جا سکتی ہے ؟ ایک عالم فرما رہے تھے کہ نماز نہ پڑھی جائے۔ جواب کے طور پر ہم نے وہ حدیث پیش کی، جس میں آپ نے اس خادمہ کی قبر پر جا کر نماز پڑھی جو مسجد نبوی میں جھاڑو دیا کرتی تھی، تو وہ فرمانے لگے کہ فقہاء کے نزدیک یہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ ہے لہٰذا ہم نہیں پڑھ سکتے۔ آپ اس کے متعلق قرآن و سنت کی روشنی میں رہنمائی فرمائیں۔ (سائل: ابوطلحہ محمد خالد عزیز) (9 فروری 2001) جواب۔ مشارٌ الیہ حدیث کو آپ کا بطورِد لیل پیش کرنا درست ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بعض فقہائے حنفیہ اور مالکیہ نے اس واقعے کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ قرار دیا ہے چنانچہ علامہ علی القاری ’’شرح مشکوٰۃ‘‘ میں لکھتے ہیں کہ زیادہ درست یہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا اور دوسروں نے آپ کے بالتبع نماز پڑھی ہے اور یا ان لوگوں نے پڑھی جو پہلے نماز میں شامل نہیں ہو سکے تھے۔ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں کہ ہم متعدد مرتبہ بیان کر چکے ہیں کہ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی امر کا خاص ہونا بغیر دلیل کے ثابت نہیں ہو سکتا اور آپ کے اس فرمان سے کہ ’’ اللہ تعالیٰ میری نماز (جنازہ پڑھنے) سے قبر کو روشن کردیتا ہے۔‘‘ قبر پر نمازِ جنازہ کی مشروعیت کی نفی نہیں ہو سکتی۔ اسی طرح امام زیلعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے قبر پر نماز کو آپ کا خاصہ قرار دیا ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں ہے، کیونکہ حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لوگ صف باندھ کر کھڑے ہوگئے لہٰذا اگر آپ کا خاصہ ہوتا تو آپ منع فرمادیتے۔ علاوہ ازیں امام بیہقی رحمۃ اللہ علیہ نے امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ غالب گمان یہ ہے کہ یہ زائد الفاظ
[1] ۔ سابقہ حوالہ۔ [2] ۔ مرعاۃ المفاتیح :5/374