کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 131
فوراً اپنے جرم پر نادم ہو کر رب کے حضور توبۂ نصوحہ کرنی چاہیے۔ بصورتِ دیگر عقابِ الٰہی کے لیے تیار رہنا ہوگا۔ حدیث میں ہے: ( اَلْمَرْئُ مَعَ مَنْ اَحَبَّ) [1] ”یعنی آدمی روزِ جزا اس کے ساتھ ہو گا جس سے اُسے پیار ہو گا۔‘‘ مرزائیوں کے بارے میں نرم گوشہ اختیار کرکے ان کے جنازہ میں شرکت کرنا بھی محبت ہی کی ایک شکل ہے۔ نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ شُرُوْرِ اَنْفُسِنَا۔ نیزمذکور شخص کی لاش کو مسلم قبرستان سے نکال کر اس کے مناسب حال جگہ میں دفن کردیا جائے۔ بسلسلۂ زیارتِ قبور دعاؤں میں مقابر کی اضافت صرف مسلمانوں کی طرف کرنا ، اس امر کی واضح دلیل ہے۔ بعض الفاظِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ فرمائیں۔ 1۔(اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ دَارَ قَوْمٍ مُؤْمِنِیْن)[2] 2۔ (اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ اَھْلَ الدِّیَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُسْلِمِیْنَ)[3] نیز شریعت ِ اسلامی میں اموات مسلمین کی زیارت کا حکم ہے۔ جب کہ مشرکین کی قبور کے پاس کھڑا ہونے سے منع کیا گیا ہے۔قرآن مجید میں ہے: (وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْہُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ ) (التوبۃ : 84) اور بعض روایات میں مشرکوں کی قبروں سے تیزی کے ساتھ گزر جانے کا امر بھی ہے۔ ’’صحیح‘‘ کے باب (بَابُ مَا جَاء َ فِی قَبْرِ النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ، وَأَبِی بَکْرٍ، وَعُمَرَ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْہُمَا) میں ہے: ( فَقُلْ : یَسْتَأْذِنُ عُمَرُ بْنُ الخَطَّابِ، فَإِنْ أَذِنَتْ لِی فَأَدْخِلُونِی، وَإِنْ رَدَّتْنِی رُدُّونِی إِلَی مَقَابِرِ المُسْلِمِینَ) انتھی ‘ علامہ عظیم آبادی فرماتے ہیں: ”اس روایت سے مقابر مسلمین کا علیحدہ ہونا ثابت ہوا۔(فتاویٰ،ص:132) مزید آنکہ امت مسلمہ کا تعامل بھی اس بات کا مؤید ہے کہ ہمیشہ مسلمانوں کے قبرستان غیر مسلموں سے علیحدہ رہے ہیں۔ (مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو فتاویٰ شمس الحق عظیم آباد،ص:130تا 132)