کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 129
کیا کہ زکوٰۃ وصول کرنا صرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تھا۔ لہٰذا اب ہم ابوبکر رضی اللہ عنہ کو زکوٰۃ ادا نہیں کریں گے۔ اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے لڑائی کے لیے تلوار اٹھائی۔ بہرصورت اس قسم کے دلائل سے خاصہ ثابت نہیں ہوا کرتا۔ بلکہ کوئی واضح دلیل ہونی چاہیے۔ جو یہاں موجود نہیں۔ اس بناء پر علامہ زیلعی حنفی ’’نصب الرایہ‘‘(1/365) میں فرماتے ہیں۔ بعض علماء نے قبر پر نماز کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ قرار دیا ہے حالانکہ یہ صحیح نہیں کیونکہ حدیث میں ہے کہ آپ کے پیچھے لوگ صف باندھ کر کھڑے ہوگئے۔ لہٰذا اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصا ہوتا تو آپ منع فرما دیتے۔ امام شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: (اِنَّ الاِْخْتِصَاصَ لَا تَثْبُتُ اِلَّا بِدَلِیْل) ”کہ کسی چیز کا خاصہ ہونا دلیل کے بغیر ثابت نہیں ہو سکتا۔‘‘ گو بعض علمائے حنفیہ اور مالکیہ نے اسے اختصاص پر محمول کرنے کی کوشش کی ہے۔ مگر یہ بلا دلیل ہے۔ ”فلاں میرے جنازے میں شریک نہ ہو‘‘ وصیت کا کیا حکم ہے؟ سوال۔ سوال کا پس منظر: ہماری فیملی میں دو گروپ ہیں۔ دونوں ہم عقیدہ ہیں۔ ان دونوں میں بڑھتی ہوئی رنجش ہے۔ ان میں سے ایک بزرگ اپنی اولاد اور متاثرین سے کہتے ہیں۔ مرجاؤں تو فلاں شخص( جس کا تعلق مخالف گروہ سے ہے) نہ میرا جنازہ پڑھے، پڑھائے اور نہ جنازہ کے ساتھ آئے۔ سوال یہ ہے کہ آیا ایسی وصیت کرنا شرعاً درست ہے اور اس پر عمل کرنا ضروری ہوگا۔ جب کہ اس کے بہت گھناؤنے اثرات کا ظہور بہت مخدوش بلکہ یقینی ہے۔ نوٹ: یہ بھی وضاحت کردینی ضروری ہے کہ ان بزرگ کی اولاد میں سے بعض کہتے ہیں کہ یہ منکر وصیت ہے کیونکہ اس سے خاندان مزید ابتری کی طرف مائل ہو گا اور اصلاح کی ممکنہ صورتیں معدوم ہو جائیں گی اور یہ کہ کسی کو ایسی وصیت کرنی ہی نہیں چاہیے جس سے(بعد میں) لواحقین فتنہ کا شکار ہوں بلکہ بعد کی باتیں بعد والوں پر چھوڑ دینی چاہئیں تاکہ وہ وقت کی مناسبت اور نزاکت کو دیکھ کر معقول فیصلہ کرکے الجھاؤ سے بچ سکیں۔ موت کا وقت معلوم نہیں لہٰذا استدعاء ہے کہ فی الفور اس کا جواب مع شرعی دلائل الاعتصام میں شائع فرما کر مشکور فرمائیں۔ ( ایک سائل۔ لاہور) (30 اکتوبر1992ء) جواب۔ کسی بھی مسلم کے جنازہ میں شرکت چونکہ امورِ خیر میں سے ہے اس کے حصول کی شریعت نے متعدد نصوص میں تحضیض و ترغیب دلائی ہے کہ اس کارِ خیر کا فاعل اتنے اتنے اجر و ثواب کا مستحق ہوگا چونکہ یہ استحقاق بندہ کو اللہ کی طرف سے تفویض کردہ ہے۔ لہٰذا دنیاوی کدورتوں و نزاعات کی بناء پر اس میں کسی کو رکاوٹ بننے کا کوئی اختیار نہیں۔ موصی کی اس قسم کی وصیت کہ فلاں اور فلاں میرے جنازہ میں شریک نہ ہوں ، ناقابل عمل اور اپنے اختیارات کی حدود سے
[1] ۔ صحیح مسلم : 956۔ صحیح بخاری : 458 [2] ۔ کنزالعمال:1/528 [3] ۔ سنن ابی داؤد : 3172