کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 124
(اِنَّ لَہُ مُرضِعًا فِی الجَنَّۃِ وَ لَو عَاشَ لَکَانَ صِدِّیقًا نَبِیًّا) [1] پھر ص:127، پر رقم فرماتے ہیں کہ حسب ذیل افراد کی نمازِ جنازہ ادا کرنا شرعاً ثابت ہے۔ بچہ اگرچہ اس کی ناتمام ولادت ہوئی ہو اس کی نمازِ جنازہ ادا کی جائے گی۔[2] ناتمام وہ بچہ ہے جس کے چار ماہ مکمل ہوچکے ہوں اور اس میں روح پھونکی گئی ہو پھر وفات پائے۔ پھر اس کی وضاحت اور تائید کے لیے تخلیق انسانی کے مدارج کی حدیث (کہ انسان اپنی ماں کے پیٹ میں چالیس دن تک نطفے کی شکل میں رہتا ہے، پھر اتنے ہی دن لوتھڑے کی شکل میں، پھر اتنے ہی دن بوٹی کی طرح رہتا ہے، پھر اس میں روح پھونکی جاتی ہے۔) الحدیث رقم فرماتے ہیں۔[3] حالانکہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( اِذَا استَہَلَّ الصَّبِیُّ صُلِّیَ عَلَیہِ) [4] اور سنن الترمذی میں بروایت حضرت جابر رضی اللہ عنہ مذکور ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (اَلطِّفلُ لَا یُصَلّٰی عَلَیہِ وَ لَا یَرِثُ وَ لَا یُورَثُ حَتّٰی یَستَھِلَّ)[5] اور صحیح بخاری میں ہے: ( اِذَا استَہَلَّ صَارِخًا صُلِّیَ عَلَیہِ وَ لَا یُصَلّٰی عَلٰی مَن لَا یَستَھِلُّ مِن اَجلِ أَنَّہٗ سِقْطً)[6] ان ہر دو مسائل میں تعارض ہے اقرب الی الصواب کون سی صورت ہے؟ جواب۔ واضح ہو کہ علامہ البانی رحمۃ اللہ علیہ کا مقصود محض نمازِ جنازہ کے حکم سے استثناء ہے، نہ کہ ان کی طرف کسی خیانت کی نسبت ہے۔ حاشا وکلا نہیں۔ اور جن روایات میں یہ ہے، کہ آپ نے اپنے صاحبزادے ابراہیم کی نمازِ جنازہ پڑھی ہے، ان میں کلام ہے یہ مقال سے خالی نہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اس کا جنازہ نہ پڑھنا محض جواز بیان کرنے کے لیے تھا، ورنہ آپ سے بچے کی نمازِ
[1] ۔ موطا امام مالک، کتاب الجہاد، باب ما جاء فی الغلول، ص: 270۔ سنن نسائی: کتاب الجنائز، باب الصلوۃ علی من غسل، رقم : 1959۔ [2] ۔ سنن أبی داؤد، کتاب الجنائز باب فی الصلوۃ علی الطفل، رقم : 3190۔ [3] ۔ حوالہ مذکور