کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 103
”کہ نمازِ جنازہ میں فاتحہ سنت ہے، یا اس سے سنت کی تکمیل ہوتی ہے۔‘‘[1] پھر یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ جنازہ کو نماز سے موسوم کیا گیا ہے جس کی دلیل نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہ فرامین ہیں: ( مَنْ صَلَّی عَلَی الْجَنَازَۃِ …) ( صَلُّوْا عَلٰی صَاحِبِکُمْ ، صَلُّوا عَلَی النَّجَاشِیِّ) اِمام بخاری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے نماز کہا ہے حالانکہ اس میں رکوع ہے نہ سجود، اس میں کلام نہ کرے اور اس میں تکبیر اور تسلیم ہے۔‘‘ پھر یاد رہے کہ حضرت عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کی صحیح حدیث (لَا صَلَاۃَ لِمَنْ لَمْ یَقْرَأْ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَاب) کا عموم نمازِ جنازہ کو بھی شامل ہے۔ اس بحث میں جواہم شے قابل التفات ہے، وہ یہ ہے کہ صحابی کا کسی فعل یا عمل کو سنت قرار دینے سے کیا وہ واقعی سنت ِنبوی قرار پائے گا؟ اس سے متعلق امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ( وَ اَصْحَابُ النَّبِیِّ لَا یَقُوْلُوْنَ بِالسُّنَّۃِ وَالْحَقّ إِلَّا لِسُنَّۃِ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰهَ علیہ وسلم ، إِنْ شَائَ اللّٰہُ) ”نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سنت اور حق کا اطلاق صرف سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ہی کرتے تھے“ اور امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے المجموع(5/224)میں اسی کو صحیح مذہب قرار دیا اور کہا ہے کہ اصول میں ہمارے اصحاب میں سے جمہور علماء اور دیگر اُصولی اور محدثین اسی بات کے قائل ہیں۔ محقق علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ علیہ حنفی نے التحریر میں اسی بات کو قطعی قرار دیا ہے ۔ اس کے شارح ابن امیر حاج کہتے ہیں:ہمارے متقدمین اصحاب کا یہی قول ہے۔ صاحب ِمیزان، رافع اور جمہور محدثین نے اسی کو اختیار کیا ہے۔(2/224) پھر تعجب کی بات یہ ہے کہ اثباتِ سنت کے باوجود حنفیہ کا اس صحیح حدیث پر عمل نہیں حالانکہ ان کے اصول کے مطابق ہے۔ موطا امام محمد میں ہے:( لَا قِرَائَ ۃَ عَلَی الْجَنَازَۃِ وَہُوَ قَوْلُ اَبِیْ حَنِیْفَۃَ) جنازہ میں عدمِ قرائت ہے او رامام ابوحنیفہ کا یہی قول ہے۔ متاخرین حنفیہ نے جب بنظر غائر اسی کو صحیح پایا اور صحیح حدیث کے مقابلہ میں اپنے مسلک کو مرجوح دیکھا تو اس کی تاویل انہوں نے اس طرح کی کہ فاتحہ کی قراء ت کا جواز تو ہے بشرطیکہ نمازی دعا اور ثنا کی نیت کرے۔ یہ محض اس زعم کی بنا پر ہے کہ حدیث اور قولِ امام میں تطبیق ہوسکے۔ گویا کہ امام صاحب کا قول دوسری ایک حدیث ہے حالانکہ یہ شرط(تاویل) فی نفسہ باطل ہے۔ جب ایک حدیث ثابت ہے تو پھر عمل اسی پر ہونا چاہئے۔ دوسری عجیب بات یہ ہے کہ حنفیہ کے ہاں تکبیر اولیٰ کے بعد نمازِ جنازہ میں ثنا پڑھنا جنازہ کی سنتوں میں شمار ہوتا ہے حالانکہ سنت میں اس کی کوئی اصل نہیں۔ ملاحظہ فرمائیے کہ جو شے ثابت ہے، احناف اس کا انکار کرتے ہیں اور جو ثابت
[1] ۔ سنن الترمذی،بَابُ مَا جَاء َ فِی القِرَاء َۃِ عَلَی الجَنَازَۃِ بِفَاتِحَۃِ الکِتَابِ،رقم:1027، مصنف عبدالرزاق، بَابُ الْقِرَاء َۃِ وَالدُّعَاء ِ فِی الصَّلَاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ ،رقم:6427