کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد3) - صفحہ 100
( سَأَلتُ ثَمَانِیَۃَ عَشَرَ صَحَابِیًا، فَقَالُوا : یَقرَأُ) [1] ”میں نے اس کے بارے میں اٹھارہ صحابہ کرام سے دریافت کیا تو انھوں نے کہا: ’’فاتحہ‘‘ پڑھی جائے۔‘‘ دوسری طرف علمائے حنفیہ ہیں، جو نمازِ جنازہ میں قرأت کے قائل نہیں ہیں۔ چنانچہ امام محمد ’’الموطأ‘‘ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا اثر نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں: ( وَ بِھٰذَا نَاخُذُ لَا قِرَائَ ۃَ عَلٰی الجَنَازَۃِ۔ وَ ہُوَ قَولُ أَبِی حَنِیفَۃِ ) [2] نیز صاحبِ ’’ہدایہ‘‘ صفت نمازِ جنازہ بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ( وَالبَدَائَ ۃُ بِالثَّنَائِ، ثُمَّ بِالصَّلٰوۃِ لِاَنَّہَا سُنَّۃُ الدُّعَائِ ) یعنی پہلے ثناء اور پھر درود شریف پڑھے۔ کیونکہ دعا کا یہ مسنون طریقہ ہے۔ امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے قول کی وضاحت کرتے ہوئے مولانا عبدالحی حاشیہ مؤطا پر لکھتے ہیں: ”ہوسکتا ہے کہ اس سے کراہت کی طرف اشارہ ہو جیسا کہ متأخرین میں سے اکثر حنفیہ نے تصریح کی ہے … اور لکھاہے کہ اگر دعا کے طور پر ’’سورۃ فاتحہ‘‘ پڑھ لی جائے تو کچھ حرج نہیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ امام محمد کی مراد لزوم کی نفی ہو، اور وہ جواز قرأت کے قائل ہوں۔ چنانچہ ہمارے متأخرین علماء میں سے حسن شرنبلالی نے اس کو اختیار کیا ہے اور انھوں نے اپنے رسالہ ’’النظم المستطاب‘‘ میں اس کی خوب وضاحت کی ہے اور جو علماء کراہت کے قائل ہیں، ان کی تردید کی ہے، اور لکھا ہے: ( وَ ھٰذَا ہُوَ الأَولٰی لِثُبُوتِ ذٰلِکَ عَن رَسُولِ اللّٰہِ صلي اللّٰه عليه وسلم) ”اور یہی بات اولیٰ ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم سے ثابت ہے۔‘‘ مولانا عبدالحی نے ’’التعلیق الممجد‘‘ میں بھی ایسے ہی خیالات کا اظہار فرمایا ہے۔ قاضی ثناء اللہ حنفی مجددی بھی اپنے ’’وصیت نامہ‘‘ میں اس بات کے قائل ہیں۔[3] امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ نے بھی اپنے مسلک کی حمایت کے لیے احادیث قرأت کی تأویل کو ضروری خیال کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں: ( مَن قَرَأَہَاَ مِنَ الصَّحَابَۃِ یَحتَمِلُ أَن یَکُونَ عَلٰی وَجہِ الدُّعَائِ، لَا التِّلَاوَۃِ ) ”ممکن ہے جن صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے جنازے میں سورۂ فاتحہ پڑھی انھوں نے تلاوت وقرأت کی بجائے بطورِ
[1] ۔ رواہ الاثرم حاشیہ موطأ امام محمد [2] ۔ مؤطا امام مالک، بَابُ: الصَّلاۃِ عَلَی الْمَیِّتِ وَالدُّعَاء ِرقم:311 [3] ۔ فتاویٰ مفید الاحناف، ص:2