کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 74
کردہ ساری ہی باتیں صحیح ہیں، ان میں سے کسی بات کو مان لینا اور بعض کو نہ ماننا ، اسے کون معقول طرزِ عمل قرار دے سکتا ہے ؟ اسی طرح اگر وہ ضعیف ہے، تب بھی معاملہ ایسا ہی ہے، اس کی ساری ہی باتیں ناقابل تسلیم ہونی چاہئیں اس کا کوئی ایک جز قابل استدلال نہیں ہو سکتا۔ یہ لطائف ہمارے فقہی جدل و مناظرہ میں عام ہیں۔ ظاہر بات ہے ، امانت و دیانت کی موجودگی میں اس کا امکان ہے، نہ جواز ہی ہے۔ 3۔ محدثین کا تیسرا وصف: محدثین کے منج کی تیسری نمایاں خوبی جمع و تطبیق کا اہتمام ہے۔ بعض روایات میں جو ظاہری تعارض نظر آتا ہے، اس کے حل کے لیے محدثین حسب ذیل طریقے اختیار کرتے ہیں: ۱۔ سند کے اعتبار سے اگر ایک روایت صحیح ہے اور دوسری ضعیف، تو صحیح السند روایت کو وہ قبول کر لیتے اور ضعیف کو نظر انداز کردیتے ہیں۔ ۲۔ اگر سند کے اعتبار سے دونوں صحیح ہوتی ہیں، لیکن درجۂ صحت میں ایک کو دوسری پر کسی وجہ سے برتری حاصل ہوتی ہے، تو وہ راجح قرار پاتی ہے۔ جیسے ایک روایت سنن کی ہے، جب کہ دوسری متفق علیہ یا صحیح بخاری یا صحیح مسلم کی ہے تو یہ دوسری قسم کی روایات صحت کے اعتبار سے سنن اربعہ کی روایات سے فائق ہیں۔ ان کو سنن کی روایات پر ترجیح حاصل ہوگی۔ ۳۔ بعض متعارض روایات میں قرائن سے تقدیم وتاخیر کا علم بھی ہو جاتا ہے۔ وہاں مؤخر روایت کو ناسخ اور مقدم روایت کو منسوخ تسلیم کرلیا جاتا ہے۔ ۴۔ جہاں تقدیم و تاخیر کا علم بھی نہ ہو اور صحت کے لحاظ سے بھی دونوں یکساں ہوں، تو محدثین دونوں روایات کا ایسا محمل اور مفہوم بیان کرتے ہیں، جس سے ان کا ظاہری تعارض دور ہو جاتا ہے ، اس کو جمع و تطبیق سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ جیسے مزارعت کی احادیث ہیں، بعض سے مزارعت کا جواز ثابت ہوتا ہے، بعض سے ممانعت۔ محدثین نے کہا: ممانعت کا تعلق ان صورتوں سے ہے جن میں کسی ایک فریق پر ظلم و زیادتی کا امکان ہے، اور جن میں ایسی صورت نہ ہو، وہاں جواز ہے۔ اس طرح کئی اور احادیث ہیں جن میں کسی میں نَہْی ہے، تو کسی میں جواز ہے۔ یہاں محدثین نَہی کو نَہی