کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 73
نہیں کیا جاتا۔ اور علماء یہ منظر روزانہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے ہیں، لیکن فقہی جمود نے ان کی آنکھوں پر پٹیاں باندھی ہیں۔
تیسری مثال: بریلوی حضرات کے ہاں رواج ہے کہ نمازِ جنازہ کے فوراً بعد میت کے اِردگرد کھڑے ہو کر سب ہاتھ اٹھا کر دعا مانگتے ہیں، اِس کو وہ بہت ضروری سمجھتے ہیں۔ دلیل کیا ہے ؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: ((إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی الْمَیِّتِ فَأَخْلِصُوْا لَہُ الدُّعَائَ)) [1] ’’اس کاصحیح ترجمہ تو یہ ہے کہ جب تم میت کی نمازِ جنازہ پڑھنے لگو ، تو اخلاص کے ساتھ اس کے لیے (مغفرت کی) دعا کرو۔ جیسے قرآن مجید میں ہے:
﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ ﴾ (المائدۃ:۵؍۶)
’’اے ایمان والو! جب تم نماز کے لیے کھڑے ہونے لگو ، تو وضو کرو۔‘‘
لیکن بریلوی حضرات إِذَا صَلَّیْتُمْ عَلَی … کا ترجمہ کرتے ہیں: ’’جب تم نماز پڑھ چکو تو…‘‘ اور اِس طرح ترجمے میں بد دیانتی کا ارتکاب کرکے جنازے کے بعد دعا مانگنے کے اپنے غیر مسنون عمل کا جواز ثابت کرتے ہیں، حالانکہ اگر یہ ترجمہ صحیح ہے تو پھر ان کو وضوء بھی نماز کھڑے ہونے کے بعد ہی کرنا چاہیے، نہ کہ نماز سے پہلے ۔ جیسا کہ
﴿ یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ ﴾ (المائدۃ:۵؍۶)
کا ترجمہ بریلوی استدلال کے مطابق کرنے کا اقتضاء ہے۔
چوتھی مثال: یہی حال ان احادیث کی صحت و ضعف کے معاملے میں ہے جو اختلافی مسائل میں مدارِ بحث بنتی ہیں۔ ان میں نہایت بے خوفی کے ساتھ امانت و دیانت کا خون کرکے ثقہ راویوں کو ضعیف اور ضعیف راویوں کو ثقہ ثابت کرنے پر زور صرف کیا جاتا ہے، جس کی تفصیل التنکیل بما فی تأنیب الکوثری من الأباطیل(عربی) تالیف شیخ عبدالرحمن بن یحییٰ یمانی میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ اس میں ایک لطیفہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ایک راوی اپنی کسی من پسند روایت میں ہوتا ہے ، تو اسے اس وقت ثقہ باور کرایا جاتا ہے اور وہی راوی جب اس روایت میں آتا ہے جس سے دوسرا فریق استدلال کرتا ہے، تو وہ ضعیف قرار پا جاتا ہے۔ ایک اور لطیفہ یہ ہوتا ہے ، کہ ایک حدیث میں دو تین باتیں ہوتی ہیں، ان میں سے کوئی ایک بات تو قبول کر لی جاتی ہے کہ اس سے ان کے کسی فقہی مسئلے کا اثبات ہوتا ہے اور دوسری باتیں ردّ کر دی جاتی ہیں کیونکہ وہ فریق مخالف کے موافق ہوتی ہیں، حالانکہ حدیث ایک ہے، سند ایک ہے، اگر وہ حدیث صحیح ہے تو اس میں بیان
[1] سنن أبی داؤد،الجنائز، باب الدعاء للمیت، رقم:۳۱۹۹