کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 71
2۔ دوسرا وصف:
محدثین کا دوسرا وصف، اَمانت اور دیانت کا اہتمام ہے۔ انھوں نے احادیث کی جمع وتدوین میں بھی کمال دیانت کا مظاہرہ کیا ہے۔ اور جرح و تعدیل کے اصولوں کو استعمال کرکے احادیث کا رتبہ متعین کرنے میں بھی انھوں نے کسی ذہنی تحفظ کا مظاہرہ کیا ہے، نہ کسی حزبی و فقہی تعصب کا۔
اہل تقلید کا رویہ:
اہل تقلید میں اِس کی بھی کمی ہے۔ اس کی بہت سی مثالیں دی جا سکتی ہیں، لیکن یہاں ہم صرف چار مثالیں پیش کریں گے، دو علمائے دیوبند کی، تیسری بریلوی حضرات کی یہ دونوں ہی امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے مقلد کہلاتے ہیں۔ چوتھی مثال دونوں میں قدر مشترک کی حیثیت رکھتی ہے۔
پہلی مثال: خواتین نماز کس طرح پڑھیں؟ یعنی وہ رکوع سجدہ کس طرح کریں؟ ہاتھ کہاں باندھیں؟ رفع الیدین کس طرح کریں؟ عورتوں کی بابت کسی بھی صحیح حدیث میں ان امور کی وضاحت نہیں ملتی، اس لیے وہ نبی صلي الله عليه وسلم کے فرمان:(( صَلُّوْا کَمَا رَأَیْتُمُوْنِیْ أُصَلِّیْ)) [1] ’’تم اس طرح نماز پڑھو، جس طرح تم نے مجھے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے۔‘‘ کے عموم میں شامل ہوں گی اور مذکورہ سارے کام مردوں ہی کی طرح سرانجام دیں گی۔ لیکن علمائے احناف کہتے ہیں کہ مرد اور عورت کی نماز میں فرق ہے۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ عورت ہاتھ سینے پر باندھے (جب کہ مرد ناف کے نیچے) عورت ہاتھ باندھتے، یعنی تکبیر تحریمہ کے وقت اپنے ہاتھ کندھوں تک اُٹھائے(جب کہ مرد کانوں کی لَو کو ہاتھ لگائے) عورت سجدہ بالکل سمٹ کر اور زمین سے چمٹ کر کرے، جب کہ سجدے میں مردوں کی کہنیاں اور بازو زمین سے اُٹھے ہونے چاہئیں۔ اِسی طرح کچھ اور فرق بھی بتلائے جاتے ہیں(ہم نے ختصار کی خاطر موٹی موٹی باتیں بیان کی ہیں۔) ’’خواتین کا طریقہ نماز‘‘ تالیف مولانا عبدالرؤف سکھروی ہمارے سامنے ہے، اِس میں ان فروق کو بیان کرنے کے لیے احادیث کے نام سے کئی احادیث بیان کی گئی ہیں لیکن ان میں سے کوئی ایک حدیث بھی صحیح نہیں ہے اور ستم ظریفی کی انتہا ہے یا امانت و دیانت کے فقدان کا یہ حال ہے کہ ان بیان کردہ احادیث میں السنن الکبرٰی للبیہقی کی دو روایات بھی ہیں۔ جن کو درج کرکے امام بیہقی نے لکھا ہے((لَا یحتج بأمثالھما)) ’’یہ روایات اتنی ضعیف ہیں کہ ان جیسی روایات سے استدلال نہیں کیا جا سکتا۔‘‘ لیکن مذکورہ
[1] صحیح البخاری، الأذان، باب الأذان للمسافرین إذا کانوا جماعۃ…،رقم:۲۳۱