کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 70
٭ یا اُن کے دَور تک اس حدیث کی سند میں کوئی راوی ضعیف ، متروک اور کذاب نہیں ہوگا۔ ٭ یا حدیث کی صحت و ضعف ایک اجتہادی امر ہے ۔ اس لیے ایک مجتہد نے جس حدیث سے استدلال کیا ہے ، چاہے وہ ضعیف بلکہ موضوع ہی ہو، اس کا استدلال صحیح ہے۔ کسی دوسرے مجتہد کو اس کی بات کو ردّکرنے کا حق نہیں ہے۔ ٭ یا روایت تو ضعیف یا موضوع (من گھڑت، یعنی بے سند) ہے، لیکن اسے تَلَقِّی بِالْقَبُوْل کا درجہ حاصل ہے۔ جیسے((أَوَّلُ مَا خَلَقَ اللّٰہُ نُوْرِی)) یا (( لَوْلَاکَ لَمَا خَلَقْتُ الأَفْلَاکَ)) جیسی بے سند بنائی ہوئی حدیثیں ہیں۔ یہ دونوں من گھڑت روایات بریلوی حضرات ہی نہیں، علمائے دیوبند بھی اپنی کتابوں میں لکھتے اور اپنے وعظ و تقریر میں بیان کرتے ہیں۔ یا حسن ظن کی بنیاد پر مرسل روایات کو صحیح تسلیم کرنا۔ ٭ یا ’’درایت‘‘ کے خلاف ہونے کا دعویٰ کرکے روایت کو ردّ کردینا۔ ٭ یا اپنے خود ساختہ اصولوں کی روشنی میں صحیح احادیث کو ردّ کردینا، جس پر شاہ ولی اللہ اور شاہ عبدالعزیز; نے بھی احتجاج کیا ہے۔ ٭ یا (بہ زعم خویش) یہ دعویٰ کرکے کہ فلاں حدیث قرآن کے معارض ہے، حدیث کو ردّ کر دینا۔(جب کہ کوئی صحیح حدیث قرآن کے معارض نہیں) ٭ یا حدیث ِ آحاد کو نظر انداز کرنا۔ ٭ یا غیر فقیہ راوی(صحابی) کی روایت قیاس کے خلاف ہوگی، تو نامقبول ہوگی۔ اور اس قسم کے دیگر طریقے یا اصول، جن کے ذریعے سے صحیح حدیث کو بلا تامل ردّ کردیا جاتا ہے اور ضعیف ، مرسل حتی کہ موضوع حدیث تک کو قبول کرلیا جاتا ہے۔ یہ محدثین کے مسلک و منہج کے خلاف یا بہ الفاظ دیگر ،ثابت شدہ نصوص حدیث کو مسترد کرنے یا غیر ثابت شدہ بات کو شریعت باور کرانے کی مذموم سعی ہے۔ جس کے ہوتے ہوئے کبھی نصوصِ شریعت کی بالادستی قائم نہیں ہو سکتی اور نہ اختلافات کا خاتمہ ہی ممکن ہے۔ علاوہ ازیں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان چور دروازوں کا کوئی تعلق امام ابوحنیفہ سے نہیں ہے۔ یہ سب بعد کے لوگوں کی ایجاد ہے۔ ان میں سے کوئی ایک اصول بھی امام ابوحنیفہ سے ثابت نہیں کیا جاسکتا۔ گویا محدثین کی روش کو اپنانا امام صاحب کی تقلید کے منافی نہیں ہے۔