کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 69
اکیڈمی، فقیر والی ، ضلع بہاول نگر ،تاریخِ اشاعت درج نہیں) آج اُس فقہی توسُّع کی ضرورت ہے جس کی بعض مثالیں مولانا عبدالحئی لکھنوی وغیرہ کے طرزِ عمل میں ملتی ہیں، جس میں نصوصِ شریعت کی بالادستی قائم رہتی ہے، نہ کہ اس فقہی جمود کی جس کی کچھ مثالیں عرض کی گئی ہیں جس کے عدم جواز میں کوئی اختلاف نہیں، بلکہ ان کی اپنی صراحت کے مطابق اس میں کفر تک کا اندیشہ پایا جاتاہے۔ علمائے اسلام اور مفتیانِ دین ِ متین کو کون سی راہ اختیار کرنی چاہیے یا ان کامنصب ِ عظیم کس راہ کو اپنانے کا تقاضا کرتا ہے؟ اس کی وضاحت یا فیصلہ کوئی مشکل امر نہیں۔ ﴿ فَاَیُّ الْفَرِیْقَیْنِ اَحَقُّ بِالْاَمْنِ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (الانعام:۶؍۸۱) ’’دونوں فریقوں میں سے کون امن و سلامتی کا زیادہ مستحق ہے، اگر تم علم رکھتے ہو؟۔‘‘ امن و سلامتی کی راہ وہی ہے جس کی نشاندہی ہم نے بالکل آغاز میں کی تھی جو امت مسلمہ کی وحدت کی ضامن بھی ہے اور فقہی اختلافات و حزبی تعصبات کے خاتمے یا کم از کم اس کی شدت کو کم کرنے کا واحد ذریعہ بھی۔اور یہ محدثین کی راہ ہے، کسی ذہنی تحفظ کے بغیر عمل بالحدیث کی راہ ہے، فقہی جمود کے بجائے فقہی توسُّع کی راہ ہے اور ہر صورت میں نصوصِ شریعت کی برتری کو ماننے اور قائم رکھنے کی راہ ہے اور اس کے خطوط حسب ذیل ہیں: محدثین کا مسلک و منہج: ۱۔ پہلا اصول: حدیث کی صحت و ضعف کی تحقیق میں سند کو بنیادی اہمیت حاصل ہے: ((لَو لَا الاِسْنَادُ لَقَالَ مَنْ شَائَ مَا شَائَ ))[1] ’’سند کو تسلیم نہ کیا جائے تو پھر ہر شخص جو چاہے ، کہہ سکتا ہے۔‘‘ سند ہی غیر صحیح روایات کو جانچنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس بنیاد سے روایات صحیح قرار دینے کے تمام چور دروازے بند ہو جاتے ہیں۔ اہل تقلید کا رویہ: اہل تقلید کا رویہ اس کے برعکس ہے ، وہ ردّ حدیث کے لیے کئی طریقے اختیار کرتے ہیں، مثلاً کہا جاتا ہے: ٭ فلاں امام نے جو بات کہی ہے، آخر ان کے سامنے بھی تو کوئی حدیث ہوگی؟
[1] مقدمۃ صحیح مسلم،ص:۱۱