کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 68
اکبر آبادی اور ان کا فقہی توسُّع‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے، جو ان کے وفات کے بعد لکھاگیا تھا اور اُس وقت ’’الاعتصام‘‘، ’’میثاق‘‘ اور ’’محدث‘‘ بنارس(بھارت) وغیرہ میں شائع ہوا تھا۔
اس تقلید کو آخر کیا کہا جائے؟:
جب اس قسم کی مثالیں موجود ہیں جو یقیناً مستحسن بھی ہیں اور وقت کی ضرورت بھی اور سب سے بڑھ کر نصوصِ شریعت کا اقتضاء بھی۔ تو پھر اِس کے برعکس فقہی جمود کی یہ مثالیں ناقابل یقین لگتی ہیں جو بعض اکابر کی طرف سے سامنے آئی ہیں۔ لیکن چونکہ وہ ان کی کتابوں میں موجود ہیں ، اس لیے انھیں جھٹلانا بھی ممکن نہیں ہے جیسے مثال کے طور پر مولانا محمود الحسن صاحب، جن کو شیخ الہند کہاجاتا ہے، فرماتے ہیں:
(( اَلْحَقُّ وَالْاِنْصَافُ أَنَّ التَّرْجِیْحَ لِلشَّافِعِیِّ فِی ھٰذِہِ الْمَسْئَلَۃِ وَ نَحْنُ مُقَلِّدُوْنَ یَجِبُ عَلَیْنَا تَقْلِیْدُ اِمَامِنَا أَبِیْ حَنِیْفَۃََ )) [1]
’’حق و انصاف کی بات یہی ہے کہ(احادیث و نصوص کے اعتبار سے اس مسئلۂ خیارِ مجلس) میں اِمام شافعی کی رائے کو ترجیح حاصل ہے ۔ لیکن ہم مقَلِّد ہیں، ہم پر اپنے امام ابوحنیفہ، کی تقلیدہی واجب ہے۔‘‘
اِسی ذیل میں بعض وہ تبدیلیاں بھی آتی ہیں جو نصوص حدیث میں محض اس لیے کی گئی ہیں کہ ان کے معمول بہ مسائل کا اثبات ہو سکے جیسے مسند حمیدی میں حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث ہے جو اثبات رفع الیدین میں واضح ہے، لیکن الفاظ کے معمولی ردّ و بدل سے اسے عدم رفع الیدین کی دلیل بنا دیا گیا ہے۔ اسی طرح مصنَّف ابن أبی شیبہ کی ایک روایت اور سنن ابو داؤد کی ایک روایت میں کیا گیا۔ ان کی تفصیل بہ وقت ضرورت پیش کی جا سکتی ہے۔
حتی کہ تقلیدی جمود کا یہ نقشہ بھی سامنے آیا کہ اثباتِ تقلید کے جوش میں قرآن مجید کی ایک آیت میں﴿وَ اِلٰی اُولِی الأَمْرِ مِنْکُمْ﴾ کا اضافہ کردیا گیا۔ اسے کتابت کی غلطی اس لیے نہیں سمجھا جا سکتا کہ استدلال کی ساری بنیاد ہی اس اضافی ٹکڑے پر ہے۔[2]
ایک اور صاحب نے قرآن مجید کی ایک آیت میں لفظی و معنوی تصرف کرکے عدم رفع الیدین کو ’’ثابت‘‘ کردکھایا ہے۔ (ملاحظہ ہو ’’تحقیق مسئلہ رفع الیدین ، از ابو معاویہ صفدر جالندھری، ابوحنیفہ
[1] التقریر الترمذی،ص:۴۹، مکتبۃ رحمانیہ، لاہور
[2] ایضاح الادلّۃ،ص:۲۱۶،۲۱۵