کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 67
اس حالت میں درخواست دی ہو جب کہ صبر سے عاجز آگئی ہو، تو اس صورت میں اس کی بھی گنجائش ہے کہ مذہب مالکیہ کے موافق چار سال کی میعاد میں تخفیف کردی جائے، کیونکہ جب عورت کے ابتلا کا شدید اندیشہ ہو تو ان(مالکیوں) کے نزدیک کم از کم ایک سال صبر کے بعد تفریق جائز ہے۔ [1]
ایک اور حنفی عالم ڈاکٹر تنزیل الرحمن (سابق چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل) نے اس سے بھی کم مدت کے اندر، یعنی فی الفور عدالت کو نکاح فسخ کرکے دوسری جگہ شادی کرنے کی اجازت دی ہے۔ چنانچہ وہ ایک سال کے قول کو(چار سال کے مقابلے میں) موجودہ زمانے کے لحاظ سے ترجیح دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’’مگر لازم ہے کہ مزید ایک سال انتظار کا حکم اس صورت میں دیا جائے گا جب کہ عورت کے پاس ایک سال کے نفقے کا انتظام موجود ہو۔ بصورتِ دیگر عدالت، بعد ثبوت مفقود الخبری، بوجہ مفقود الخبری شوہر و عدم موجودگی نفقہ، فی الفور نکاح فسخ کرنے کی مجاز ہو گی۔‘‘ [2]
ایک مجلس کی تین طلاقوں کا مسئلہ بھی اہل حدیث و احناف کے مابین ایک اہم مسئلہ ہے لیکن اس میں بھی متعدد علمائے احناف نے اہل حدیث کے نقطہ نظر کو اپنایا ہے اور دوسروں کو بھی اس کے اپنانے کی تلقین کی ہے جیسے مولانا سعید احمد اکبر آبادی مدیر’’برھان‘‘ دہلی، مولانا عبدالحلیم قاسمی( بانی جامعہ حنفیہ گلبرگ ،لاہور) مولانا حسین علی واں بھچراں، پیر کرم شاہ ازہری وغیرھم ہیں۔ اور ایسے بھی متعدد علماء ہیں جنھوں نے بہ وقت ضرورت (یعنی ناگزیر حالات میں) مجلس واحد کی تین طلاقوں کوایک طلاق شمار کرکے رجوع کرنے کا فتویٰ دیا ہے جیسے مفتی کفایت اللہ دہلوی اور مولانا عبدالحئی لکھنوی وغیرہ۔(دیکھئے ’’کفایت المفتی‘‘ اور ’’فتاویٰ مولانا عبدالحئی لکھنوی‘‘) اور ایسے بھی ہیں جو خود تو فتویٰ دینے سے گریز کرتے ہیں لیکن بعض خصوصی حالات میں وہ اپنے خاص مریدوں یا متعلقین کو مشورہ دیتے ہیں کہ وہ کسی اہل حدیث عالم سے فتوی حاصل کرکے رجوع کرلیں۔ بعض اور مسائل میں بھی اس قسم کی مثالیں موجود ہیں جیسے مولانا سعید احمد اکبر آبادی کی مثال سطورِ بالا میں گزری ہے۔ یہ مولانا انور شاہ کشمیری کے ارشد تلامذہ میں سے ہیں، اس کے باوجود انھوں نے فقہ حنفی کے بہت سے مسائل کو چھوڑ کر دوسری رائے اختیار کی ۔ علاوہ ازیں انھوں نے حدیث کے بارے میں بعض علمائے احناف کی روش پر بھی سخت تنقید کی اور اسے محدثین کا استخفاف ، ان کی سعی و کاوش پر پانی پھیرنے اور منکرینِ حدیث کی ہم نوائی سے تعبیر کیا۔(اس کی تفصیل راقم کے مضمون’’مولانا سعید احمد
[1] الحیلۃ الناجزۃ،ص:۷۱
[2] مجموعۂ قوانین اسلام:۲؍۷۰۱