کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 66
بعد کے لوگ بھی اگر دلائل کی بنیاد پر ایسا کریں گے، تو اسے کون غیر معقول یا اِمام کے مذہب سے خروج قرار دے سکتا ہے؟
اس اختلاف کی اور بھی کئی مثالیں ہیں۔ ان میں ایک اور نہایت نمایاں مثال مولانا عبدالحئی لکھنوی حنفی کی ہے۔ انھوں نے فقہ کے مقابلے میں احادیث کو ترجیح دیتے ہوئے بیسیوں مسائل میں محدثین کے مسلک کو راجح قرار دے کر انھیں اختیار کیا ہے جس کی تفصیل ہمارے فاضل دوست مولانا ارشاد الحق اثری حفظہ اللہ (فیصل آباد) کی تالیف’’مسلک احناف اور مولانا عبدالحئی لکھنوی‘‘ میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔ بلکہ مولانا اشرف علی تھانوی اوران کے ہم عصر علمائے دیوبند نے بھی زوجہ مفقود الخبر اور بعض دیگر صورتوں میں فقہ حنفی کوچھوڑ کر فقہ مالکی کی رائے کو اختیار کیا ہے۔(تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، الحیلۃ الناجزۃ ، تالیف مولانا اشرف علی تھانوی)
بلکہ اس کتاب کے نئے ایڈیشن میں حرفِ آغاز کے عنوان سے مولانا تقی عثمانی صاحب کا دیباچہ ہے، اس میں ان کا بھی یہ اعتراف موجود ہے:
’’ایسی خواتین جنھوں نے نکاح کے وقت تفویض طلاق کے طریقے کو اختیار نہ کیا ہو، اگر بعد میں کسی شدید مجبوری کے تحت شوہر سے گلو خلاصی حاصل کرنا چاہیں، مثلاً شوہر اتنا ظالم ہو کہ نہ نفقہ دیتا ہو نہ آباد کرتا ہو۔ یا وہ پاگل ہو جائے یا مفقود الخبر ہو جائے یا نامرد ہو اور از خود طلاق یا خلع پر آمادہ نہ ہو ، تو اصل حنفی مسلک میں ایسی عورتوں کے لیے شدید مشکلات ہیں، خاص طور پر اُن مقامات پر جہاں شریعت کے مطابق فیصلے کرنے والا کوئی قاضی موجودنہ ہو، ایسی عورتوں کے لیے اصل حنفی مسلک میں شوہر سے رہائی کی کوئی صورت نہیں ہے… حضرت حکیم الامت(مولانا تھانوی) قدس سرہ نے ایسے بیشتر مسائل میں مالکی مذہب کے مطابق فتوی دیا ہے۔‘‘[1]
اس میں یہ بھی صراحت ہے کہ (متحدہ) ہندوستان کے علماء نے بھی مولانا تھانوی کی تصدیق و تائید فرمائی۔
مثال کے طور پر زوجۂ مفقود الخبر کے متعلق فقہ مالکی کے مطابق یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ وہ عدالتی فیصلے کے بعد چارہ سال انتظار کرے اور اس کے بعد چار مہینے۱۰ دن عدت گزار کے دوسری جگہ نکاح کرلے۔ لیکن اس کے ساتھ ہی انھوں نے یہ بھی فرمایا ہے کہ مرافعہ (عدالتی چارہ جوئی) کے بعد مزید انتظار کی صورت میں اگر عورت اندیشۂ ابتلاء ظاہر کرے اور اس نے ایک عرصۂ دراز تک مفقود کا انتظار کرنے کے بعد مجبور ہو کر
[1] الحیلۃ الناجزۃ،ص:۹۔۱۰، دارالاشاعت، کراچی