کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 65
دین راہِ نجات ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کی حفاظت کا بھی ذمہ لیا اور فرمایا: ﴿ اِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّکْرَ وَ اِنَّا لَہٗ لَحٰفِظُوْنَ ﴾ (الحجر: ۱۵؍۹( ’’ہم ہی نے اس ’’الذکر‘‘ کو اتارا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں۔‘‘ ﴿الذکر﴾ سے مراد قرآن مجید ہے، جو محفوظ ہے، اِس میں کسی قسم کا تغیر نہیں ہوا ہے اور نہ آئندہ ہی ہو سکے گا اور چونکہ حدیث ِ رسول کے بغیر اس کو سمجھنا اور اس پر عمل کرنا ممکن نہیں تھا، اس لیے اس کی حفاظت کے مفہوم میں حدیث کی حفاظت بھی شامل ہے۔ چنانچہ حدیث کی حفاظت کے لیے اللہ تعالیٰ نے محدثین کا گروہ پیدا فرمایا جس نے بے مثال کاوش و محنت سے حدیث کی حفاظت کا عظیم الشان کام سرانجام دیا، اس لیے اس دین کا ماخذ صرف اور صرف قرآنِ کریم اور احادیث صحیحہ ہیں اور ان کو سمجھنے کے لیے کسی بھی فقہی کتاب کی ضرورت نہیں، البتہ صحابہ کرام کا منہج اور ان کی تعبیرات کی پابندی ضروری ہے ۔ ۵۔ ائمہ کرام میں سے کسی نے بھی یہ نہیں کہا کہ ان کی بات حرفِ آخر ہے بلکہ اس کے برعکس انھوں نے یہ کہا ہے کہ ان سے بھی غلطی ہو سکتی ہے۔ اس لیے انھوں نے اس امر کی بھی تاکید کی ہے کہ ان کے قول کے مقابلے میں صحیح حدیث آجائے، تو ہماری بات کو چھوڑ دینا اور حدیث پر عمل کرنا ۔ علاوہ ازیں خود ان کا بھی کئی باتوں میں رجوع ثابت ہے۔ اور بعض مسائل میں ان کے شاگردوں کی بھی یہ صراحت موجود ہے کہ یہ حدیث ہمارے استاد اور امام کے سامنے نہیں تھی، اس لیے انھوں نے اس کے برعکس رائے اختیار کی اگر انھیں یہ حدیث مل جاتی ، تو وہ یقینا اپنی رائے سے رجوع کر لیتے۔ ائمہ کے دور میں احادیث کی جمع و تدوین اور ان کی جانچ پرکھ کا وہ کام نہیں ہوا تھا جو کتب ستہ اور دیگر کتابوں کے مؤلفین نے کیا، اس لیے ان کے سامنے بطورِ خاص اِمام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے سامنے احادیث کے یہ مجموعے نہیں تھے، اس لیے وہ تو اپنی غلطی پر معذور بلکہ مأجور ہی ہوں گے۔ لیکن احادیث صحیحہ کے مجموعے مرتب و مدوَّن ہوجانے کے بعد، حدیث کے مقابلے میں ، کسی فقہی رائے پر اصرار کرنے اور مختلف انداز سے حدیثوں کو مسترد کرنے کا کیا جواز ہے؟ ۶۔ ان ائمہ کے شاگردانِ رشید نے بہت سے مسائل میں اپنے امام اور استاذ سے اختلاف کیا ہے۔ قاضی ابو یوسف اور امام محمد دونوں اِمام ابوحنیفہ کے سب سے اہم شاگرد ہیں۔ انھوں نے اپنے امام سے فروع ہی میں نہیں، اصول میں بھی اختلاف کیا ہے۔ اور اختلاف بھی چند ایک مسائل ہی میں نہیں بلکہ دو تہائی (2/3)مسائل میں کیا ہے۔اگر وہ امام صاحب سے اتنے اختلاف کے باوجود مقلد کے مقلد ہی ہیں، تو