کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 64
اس دین کو اللہ تعالیٰ نے یا اللہ کے رسول نے ’’مذاہب‘‘ میں تقسیم نہیں فرمایا، بلکہ اس ایک دین ہی کو مل کر مضبوطی سے تھامنے کا حکم دیا اور جدا جدا ہونے سے منع فرمایا ہے: ﴿وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَاکَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ﴾ (آل عمران:۳؍۱۰۳) اور اپنے رسول کے ذریعے سے بھی اعلان کروایا: ﴿وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ ﴾ (الانعام :۶؍۱۵۴) ’’یہ میرا سیدھا راستہ ہے، تم اسی کی پیروی کرو،اور کئی راستوں کے پیچھے مت لگو، وہ تمھیں اس سیدھے راستے سے پلٹا دیں گے۔‘‘ ۲۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے متعدد مقامات پر تَفَرُّق سے روکا ہے، جس کا مطلب فرقوں اور گروہوں میں بٹ جانا ہے اور فقہی مذاہب میں منقسم ہوجانا بھی اس سے خارج نہیں ہے۔ علاوہ ازیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک ہی راستے پر چلنے کی تلقین فرمائی ہے اور دوسرے تمام راستوں کوغلط قرار دیا ہے ۔ اس اعتبار سے حق کا راستہ ایک ہی ہو سکتا ہے نہ کہ متعدد۔ عقل و نقل کے اعتبار سے متعدد راستے بہ یک وقت کس طرح’’حق‘‘ ہو سکتے ہیں۔ قرآن تو کہتا ہے: ﴿ فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ ﴾ (یونس :۱۰؍۳۲) ’’حق ایک ہی ہے، باقی سب گمراہی۔‘‘ ۳۔ یہ دین اسلام یا صراطِ مستقیم کیا ہے؟ اور کہاں ہے ؟ یہ قرآنِ مجید اور نبی صلي الله عليه وسلم کی احادیث کا نام ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: )) تَرَکْتُ فِیْکُمْ أَمْرَیْنِ لَنْ تَضِلُّوْا مَا تَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا ، کِتَابَ اللّٰہِ وَ سُنَّۃَ نَبِیِّہٖ (([1] ’’میں تمہارے اندر دو چیزیں چھوڑ چلا ہوں، تم جب تک اِن دونوں کو تھامے رہو گے، ہر گز گمراہ نہیں ہو گے، ایک اللہ کی کتاب اور دوسری اس کے نبی کی سنت۔‘‘ ۴۔ یہ دین، سابقہ دینوں کی طرح غیر محفوظ نہیں رہا چونکہ قیامت تک آنے والے انسانوں کے لیے یہی
[1] موطأ اِمام مالک، کتاب القدر، حدیث:۳