کتاب: فتاویٰ ثنائیہ مدنیہ(جلد2) - صفحہ 620
جو محل اختلاف میں مفید نہیں۔ ۳۔ ظاہر ہے کہ جو شئے سنت سے ثابت نہیں، وہ بدعت ہے۔ ۴۔ عبادات میں اصل توقف ہے، اجتہاد کی گنجائش نہیں۔ ۵۔ انفرادی دعا کا آدمی کو ہر وقت اختیار ہے، جس مناسب وقت میں چاہے مانگ سکتا ہے لیکن ہمیشہ ایک وقت کا التزام نہیں کرنا چاہئے۔ ۶۔ جمعہ کی نماز کے بعد والی دعا کا حکم بھی نماز کے بعد اجتماعی دعا جیسا ہے، تخصیص کی کوئی دلیل نہیں۔ اس مسئلے کے بارے میں ’’کتاب الاعتصام‘‘از امام شاطبی لائق مطالعہ ہے۔ اللہ ربّ العزت جملہ اہل اسلام کو کتاب وسنت کے صحیح فہم کی توفیق عطا کرے۔ آمین اجتماعی دعا پر حنفی علماء کا موقف اس موضوع پرایک مخلص حنفی دوست[1] اشاعت ِدین کا جذبہ صادقہ رکھنے والے نے درج ذیل تحریر میرے سپرد کی ہے، ان کے الفاظ ملاحظہ فرمائیں: ’’آپ کو معلوم ہے کہ خانہ کعبہ اور مسجد نبوی میں نماز کے بعد اجتماعی دعا کبھی بھی نہیں ہوتی اور نہ دعا بعد الفرائض میں رفع یدین ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی اہل حدیث کی اکثروبیشتر مساجد میں نماز کے بعد اجتماعی دعا نہیں ہوتی۔ دعا بعد الفرائض انفراداً رشید احمد رحمہ اللہ (بانی ہفت روزہ ’’ضربِ مومن‘‘اور روزنامہ ’’اسلام‘‘) اپنی مشہور تالیف ’’نمازوں کے بعد دعا‘‘یعنی زبدۃ الکلمات فی حکم الدعاء بعد الصلوات میں احادیث، عباراتِ فقہ، الروایات المزیدۃ، العبارات المزیدۃ کے تحت پوری تحقیقات کے بعد مندرجہ ذیل فتویٰ صفحات ۱۹، اور۲۰ پر صادر فرما چکے ہیں۔ حاصل کلام: زبدۃ الکلمات مع ضمیمہ میں مندرجہ تحقیقات کا حاصل یہ ہے: 1۔ نماز کے بعد اجتماعی دعا کا مروّجہ طریقہ بالاجماع بدعت ِقبیحہ ہے۔ 2۔ دعا بعد الفرائض میں رفع یدین نہیں، إلا ان یدعو احیانا لحاجۃ خاصۃ (الا کہ کبھی کسی خاص ضرورت کے لئے ایسا کیا جائے) 3۔ امام مالک اور امام طرطوشی اور ان دونوں کے اصحاب رحمہم اللہ تعالیٰ کے ہاں ہر نماز کے بعد فارغ ہوتے ہی امام کا اپنی جگہ سے ہٹ جانا لازم ہے۔
[1] محترم محمد سرور صاحب نے یہ تحریر ماہنامہ القاسم(ج:۶؍عدد:۱۱،مارچ:۲۰۰۳ء،ص:۱۹) میں بھی شائع کرائی ہے۔